عمران خان کی حکومت کو ایک عالمی سازش کے بعد مداخلت سے ختم کردیا گیا امریکہ میں تیار کی جانے والی اس سازش میں مقامی مہرے استعمال کیے گئے شطرنج کی کھیل سے واقفیت رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ مخالف کو شکست دینے کے دو طریقے ہوتے ہیں ایک فوری یا جھٹ پٹ دوسرا لمبااور طویل کھیل گھاک قسم کے شاطر لوگ دونوں طرح کا کھیل کھیلنے کے ماہر ہوتے ہیں کہا جاتا ہے کہ سیاست بھی شطرنج جیسا کھیل ہے جس میں پیادے سے لیکر بادشاہ تک سبھی کردار موجود ہوتے ہیں سوائے ایک جج کے جو سیاست میں ہوتا ہے شطرنج میں نہیں یہاں ہر مہرہ بادشاہ کو بچانے کے لیے قربان ہونے کے لیے تیار رہتا ہے جبکہ سیاست میں میر جعفر اور میر صادق جیسے مہروں کو مہرہ بنا کر بادشاہ کو مات دے دی جاتی ہے سیاسی بساط میں وہی حکمران یا بادشاہ کامیاب ٹھہرتا ہے جسکی انٹیلی جنس سروس لا جواب ہو جو وقت سے پہلے حالات کا جائزہ لے کر آنے والے خطرات سے نمٹ سکے عمران خان کے بقول اسکے خلاف بھی چار پانچ ماہ قبل سازش تیار کی گئی مقامی مہروں کو لالچ اور وعدوں کے زور پر اپنے ساتھ ملایا گیا اور پھراکثریت کا تختہ الٹ کراقلیت کو حکمران بنا کر سازش کامیابی سے اپنے اختتام کو پہنچ گئی دیکھنا یہ ہے کہ ان سارے معاملات میں ہماری ایجنسیوں کا کیا کردار رہا کیا انہیں اس سازش اور پھر مداخلت کا علم تھا یا نہیں؟؟اگر علم تھا تو وزیر اعظم کو بھی بتایا گیا اگر نہیں تو کیو ں نہیں بتایا گیا اور اگر بتایا گیا تب اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان اور انکی کابینہ نے کچھ نہ کرکے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ اس سازش کا انکشاف سفیر کے خط کے بعد ہی ہوا اس سے پہلے کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا پاکستان بھر سے پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کی خریدو فروخت جاری تھی بولیاں لگ رہی تھیں اور ہماری ایجنسیاں سو رہی تھیں متعلقہ ادارے خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے اور وزیر اعظم کو اس وقت اس سازش کا علم ہو جب سانپ گذر چکا تھا اورپھر وزیر اعظم نے اسلام آباد جلسے میں لکیر پیٹنا شرع کی اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کی پہلے دس نمبرخفیہ ایجنسیوں میں سے پہلے نمبر پر ہماری فوج کی انٹر سروس انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)ہے دوسرے نمبر پر منسٹری آف اسٹیٹ سیکیورٹی (MSS)،تیسرے نمبر پر آسٹریلیائی خفیہ انٹیلی جنس سروس (ASIS)،چوتھے نمبر پر کینیڈین سیکیورٹی انٹیلی جنس سروس (CSIS)،پانچویں نمبر پر ڈائریکٹوریٹ جنرل برائے بیرونی سلامتی (DGSE)،چھٹے نمبر پر ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ (RAW)،ساتویں نمبر پر فیڈرل انٹیلی جنس سروس (BND)،آٹھویں نمبر پر سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے)،نویں نمبر پر غیر ملکی انٹیلی جنس سروس (SVR) اور دسویں نمبر پر خفیہ انٹیلی جنس سروس (SIS)۔دنیا میں پہلے نمبر کی ایجنسی پاک فوج کی یہی وجہ ہے کہ ہم نے ہر محاظ پر دشمن کے دانت کھٹے کیے چاروں طرف سے دشمنوں کی یلغار کے باوجود انہیں کامیاب نہیں ہونے دیا یہ ادارہ براہ راست وزیر اعظم کے ماتحت نہیں اس لیے انکی رپورٹس بھی ایک خاص حد سے اوپر نہیں جاتیں اسی طرح ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) بھی ہے یہ ادارے انتہائی باوقار اور بااختیار سمجھے جاتے ہیں جبکہ انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) براہ راست وزیر اعظم کے ماتحت کام کرتی ہے جسکا نیٹ ورک تقریبا ہر جگہ موجود ہے خفیہ ایجنسیاں ممکنہ اندرونی اور بیرونی خطرات کے خلاف کام کر رہی ہیں ان انٹیلی جنس ایجنسیوں کو انٹیلی جنس جمع کرنے مختلف قسم کی نگرانی کی سرگرمیاں انجام دینے حکومت کو خاص طور پر قومی سلامتی کے معاملات جعلی معلومات پھیلانے اور بعض ایجنسیوں کے معاملے میں سفارش کرنے میں اہم کردار ادا کیا جاتا ہے تاہم یہ تمام انٹیلی جنس ایجنسیاں ایک جیسی نہیں ہیں اور نہ ہی انکے کام کرنے کا انداز ایک جیسا ہے چونکہ ہم بات کررہے ہیں وزیر اعظم کے براہ راست ماتحتی میں کام کرنے والی انٹیلی جنس بیورو کی جو پاکستان کی ایک سویلین انٹیلی جنس ایجنسی ہے۔ 1947 میں قائم ہونے والی IB پاکستان کی سب سے پرانی انٹیلی جنس ایجنسی ہے اس میں تقرری اورکاموں کی نگرانی کا اختیار وزیر اعظم پاکستان کے پاس ہوتا ہے۔ انٹیلی جنس بیورو اصل میں برطانوی راج کے انٹیلی جنس بیورو کا حصہ ہے جسے برطانوی فوج کے میجر جنرل سر چارلس میک گریگر نے قائم کیا تھا جو اس وقت 1885 میں شملہ میں کوارٹر ماسٹر جنرل اور برٹش انڈین آرمی کے انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ تھے اس تقرری سے پہلے میجر جنرل سر میک گریگر کو ملکہ وکٹوریہ نے اپنی سلطنت ہندوستان بھیجا تھا جسکا مقاصد 19ویں صدی کے اواخر میں شمال مغرب کے راستے برطانوی ہندوستان پر روسی حملے کے خوف سے افغانستان میں روسی فوجیوں کی تعیناتی کی نگرانی کرنا تھا برطانوی ولی عہد کی طرف سے پاکستان کی آزادی کے بعد مسلح افواج کی طرح آئی بی کو بھی تقسیم کر دیا گیا کراچی میں پاکستان آئی بی بنائی گئی چونکہ آئی بی پاکستان کی پرانی واحد اور اہم انٹیلی جنس ایجنسی تھی جس کے پاس اسٹریٹجک اور غیر ملکی انٹیلی جنس کے ساتھ ساتھ انسداد جاسوسی اور ملکی امور کی ذمہ داری تھی جبکہ 1948 میں آئی ایس آئی کی تشکیل ہوئی آئی بی ایک سویلین انٹیلی جنس ایجنسی ہے اور اس کے ڈی جی کا تقرر سول بیوروکریسی اور پولیس سے کیا جاتا ہے اس کے ساتھ ساتھ ریٹائرڈ فوجی اہلکار بھی ڈی جی آئی بی کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ 1950 اور 1980 کی دہائی سے آئی بی سیاست دانوں، سیاسی کارکنوں، مشتبہ دہشت گردوں، اور مشتبہ غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنٹوں کی نگرانی کے لیے فعال سرگرمیاں سرانجام دی ملک میں ہونے والی بغاوتوں کا قبل از وقت پتا چلا لیا آئی بی مختلف ممالک کے سیاسی کارکنوں پربھی نظر رکھتی ہے جنہیں پاکستان کے مفادات کے خلاف سمجھا جاتا ہے 1990 کی دہائی میں آئی بی نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی جب اس کے اہلکاروں نے کامیابی کے ساتھ بہت سی دہشت گرد تنظیموں میں دراندازی کی 1996 میں IB کو سرکاری سنسرشپ پروگراموں کا کنٹرول دیا گیا جو میل، تار یا الیکٹرانک میڈیم کے ذریعے معلومات کی ترسیل کو کنٹرول کرتا ہے 1990 کی دہائی میں آئی بی ملک میں فرقہ واریت اور بنیاد پرستی کو روکنے کے لیے سرگرم عمل رہی اس کے بہت سے آپریشن دراندازی، جاسوسی، جوابی جاسوسی اور دہشت گرد تنظیموں کے بارے میں اہم معلومات فراہم کرنے کی طرف تھے امریکہ میں 9/11 کے تباہ کن دہشت گردانہ حملوں کے بعد آئی بی نے حکومت کے اسٹیک ہولڈر کے طور پر اپنا کردار ادا کیا آئی بی کی دراندازی کی کامیاب تکنیکوں نے بہت سے ہائی پروفائل دہشت گردوں اور فرقہ وارانہ عسکریت پسندوں کو پکڑا اور حراست میں لیا اس نے اپنے جدید ترین انسانی اور تکنیکی انٹیلی جنس آلات کے ذریعے پورے ملک میں خاص طور پر کراچی میں دہشت گرد نیٹ ورکس اور منظم جرائم کے ریکیٹ کو توڑنے کی کوششوں میں اہم کردار ادا کیا ہے آئی بی کو اپوزیشن عناصر کو پرسکون کرنے کے لیے حکومت کا ایک اہم آلہ سمجھا جاتا ہے اور بعض اوقات اسے حکومت کو گرانے والی مشین کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے اتنی ساری خوبیوں کے باوجود وزیر اعظم جو اس ایجنسی کا سربراہ بھی تھا کے خلاف سازش کامیاب ہو جاتی ہے اور راتوں رات پورا نظام لپیٹ دیا جاتا ہے کہاں خرابی ہوئی یا پیدا کردی گئی اس سازش کا سر اگر شروع میں ہی کچل د یا جاتا تو یہ مداخلت کبھی بھی کامیاب نہ ہوتی یہ صرف عمران خان کے لیے ہی لمحہ فکریہ نہیں بلکہ ہر اس وزیر اعظم کے لیے ایک امتحان ہے جو ملک و قوم کی خدمت کرنا چاہتا ہے۔(تحریر۔روہیل اکبر03004821200)