جنات یا بھوت پریت
تحریر:جاوید احمد
غنومو کوٹنز میں قاؤ ایتاس: قاؤ ایتاس رات کو نام لے کر پکارنے والا۔ قرآن پاک میں بھی جنات کا قصہ ہے بلکہ ایک سورہ بھی جنات کے نام پر ہے۔ یہ مخلوق تو ثابت ہے۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ گلگت بلتستان بالخصوص یاسین (یسن) میں ایسی بہت سی کہانیاں ہیں جو یہ کہا جاتا تھا کہ فلاں شخص کو دیوکی ہوا لگی یا دیو نے مارا، اُس کا منہ اس لئے ٹیڑھا ہوا ہے یا دیو نے مارا تو بیمار ہو گیا ایسی باتیں آج بھی سننے میں آتی ہیں لیکن یہ گزرے ہوے زمانے کی بات ہے۔ جنات کے علاوہ بھوت وغیرہ کی بات ہے ایک اور مخلوق جو کسی کسی کو نظر بھی آتا ہے بروشاسکی میں پھت یا جش تند کہا جاتا ہے بھی پائے جاتے ہیں۔اور دیو یا بھوت پریت سے خوف زدہ ہونا یا ڈرایا جانا بھی سننے میں آتا تھا اور ایسی ہی دو واقعات میری دادی اماں کے ساتھ بھی پیش آئے تھے۔ میری دادی ایک بہادر خاتون تھیں بیوہ ہونے کے بعد بہت سی تکلیفیں بھی دیکھی خیر ان کی زندگی کے بارے میں باتیں میں نے اپنی یاداشتوں میں کیا ہے۔لیکن یہاں جو دو واقعات کا میں ذکر کرنے جاہا ہوں وہ کچھ یو ں ہیں کہ گرمیوں کی موسم میں ہمارے علاقے میں میدانی علاقوں سے مال مویشی لے کر گرمائی چراگاہوں یا اونچی چراگاہوں میں جاتے ہیں۔ جو کہ پہلے زمانے میں زیادہ تھا لیکن آج یہ رواج کچھ کم کم ہے۔اس کی الگ وجوہات ہیں۔ ہم بھی گرمیوں میں دادی اماں کے ساتھ قرقلتی کی حسین وادیوں کی اونچی چراگاہوں میں جاتے تھے ہمارے گھر یا جونپڑیاں (چوک کوٹو) جس جگہ ہیں اس کو غونومو کوٹونزکہا جاتا ہے۔دادی اماں سناتی تھی کہ ایک رات کو ہم سوئے تھے کہ رات کے تقریبا تیسرے پہر ایک مخلوق جس کو برشاسکی میں قَاؤ ایتاس یعنی نام لے کر پکارنے ولا کہا جاتا ہے۔ وہ دور سے دادی ا ماں کا نام جو کہ جور بی بی تھا نام کر لے کر پکارتے ہو ے آیا۔ دو جور دو جور یعنی اے جور اے جور، دادی اماں نے ایک ہاتھ میرے اوپر رکھا اور آیت الکرسی کی ورد کرنے لگی وہ مخلوق آوازیں دیتا ہوا نزدیک تر ہوتا گیا یہا ں تک کہ گھر یا جونپڑی کی دروازے پر آگیا اور تین دفعہ دو جور،دو جو ر، دو جور پکارا پھر دوسری طرف چلا گیا۔لیکن دادی اماں صرف اس خوف میں تھی کہ کہیں مجھے جھاگ نہ آئے کہ کہیں خوف زادہ نہ ہو جاؤں۔ بہر حال دادی اماں آیت الکرسی پڑھتے پڑھتے سوگئی لیکن خوف ذادہ نہ ہو ئی اور گھبرایا نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اگر اس مخلوق کی پکار کی جواب میں کوئی بندہ غلطی سے جواب دینے کی کوشش کرے یعنی اس سے مخاطب ہو تو وہ مر جاتا ہے، واللہ عالم باالصواب۔ لیکن دادی اماں کو پتہ تھا اس لئے اللہ پر بھروسہ کیا اور چپ رہی اور آیت مقدس کا ورد جاری رکھا اور محفوظ رہی۔ یہ قصہ بعد میں جب دادی اماں نے ہمیں سنایا تو خوف آتا تھا۔
غنیار (غونیار)میں دیو: دوسرا واقع غنیار سندی کا ہے جہاں میرے والد صاحب نے ایک قطع اراضی خریدا تھا اور اُدھر مکان بنانے کے لئے ہم ہویلتی (سلطان آباد) سے غنیار میں جا کر ایک ایسے مکان میں رہتے تھے جس کے مکین مر گیا تھا اس کی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی ایک بچی تھی جو کہ بیاہی گئی تھی۔ اُس مکان کے سامنے یعنی نزدیک کچھ پرانے کھنڈرات تھے جن کو تھمو بٹاینگ یعنی راجوں کے کھنڈرات کہا جاتا تھا۔ سنا تھا کہ ان میں جن بھوت رہتے ہیں اور لوگ اکثر اس جگہ ڈرتے تھے۔ مختلف مخلوق لوگوں کو ڈراتے ہیں۔اس لئے ان کھنڈرات کو ڈراؤنے کہا جاتا تھا۔ ہو سکتا ہے یہ کسی راجے کا مکان ہو یا کوئی قلعہ جو انسداد زمانے کے ساتھ کھنڈرات میں بدل گئے ہوں۔ بہر حال ایک شام کو والد صاحب اپنے ماموں کے گھر گیا اور وہاں سے بہت دیر تک نہ آیا تو دادی اماں نے مجھے اور میری بڑی بہن کو سلا کر خود والد صاحب کے پولو کا گھوڑا تھا کو گھاس اور چارہ ڈالنے باہر نکلی لیکن جلد ہی واپس آگئی اور خلاف توقع سونے کے بجائے ہمیں اپنی بغلوں میں دبایا جس طرح مرغی اپنی پروں کے نیچے اپنی چوزے رکھ کر بیٹھ جاتی ہے۔ دادی اماں بھی ایسی ہی ہمارے درمیان میں اوندھے ہو کر ایک بازو کے نیچے مجھے اور دوسرے بازو کے نیچے میری بہن کو رکھا اور آیت ا لکرسی پڑھنا شروع کیا ہم جلد ہی نیند کی آغوش میں گئے پتہ نہیں دادی اماں سو بھی سکی یا نہیں۔ ہمیں رات کو اس وقت جاگ آئی جب دادی امان والد صاحب کو ڈانٹ رہی تھی۔ ہوا یوں تھا کی جب دادی اماں گھوڑے کے لئے ایک ٹوکرے یعنی تونی میں چارہ لے کر باہر نکلی تو گھوڑہ پیچھلے ٹانگوں پر کھڑے ہو کر اگلے پاؤں سے اخور کو مار رہا تھا اور عجیب سی آواز نکال رہا تھا۔ جب دادی اماں نے اِدھر اُدھر دیکھا تو سامنے کے کھنڈرات میں ایک عجیب عالم تھا۔ ایک آگ کا شعلہ آسمان سے باتیں کر رہا تھا اور اسکی رنگ نیلگوں تھا۔ ایسا لگ رہا تھا، گویا کسی بڑے اخروٹ کے شاخوں کو آگ لگی ہو اور تنا کالا نظر آرہا ہے اور شاخون کو لگی آگ آسمان سے باتیں کر رہا ہو۔ دادی اماں اس لئے جلدی سے واپس آکر ہم پر بازورکھ کر آیت الکرسی پڑھنے لگی تھی۔ جب والد صاحب آگیا تو دیکھا کہ چارہ ٹوکرے میں پڑا ہے اور گھوڑے نے اصطبل کو اُکھاڑنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑا تو سمجھا کہ گھوڑے کو چارہ نہ ملنے کی وجہ سے بھوک کی شدت کی وجہ سے ایسا حرکت کیا ہے اور اس لئے آتے ہی دادی اماں سے باز برس کرنے لگا تو دادی نے اُن کو ڈانٹا کہ یہ واقع ہوا تھا۔شکر ہے تمھارے بچے اور میں بچ گئے اور دوسرے دن دادی اماں بیمار ہو گئی اور ایک آنکھ میں شدید درد شروع ہوا تو والد صاحب ایک عا لم کے پاس گئے جو اُس زمانے کا دستور بھی تھا اور ان سے کہا کہ کوئی فال نکال کر دیکھیں کہ والدہ اچانک کیوں بیمار ہو گئی۔ تو اُس عالم نے فال نکالا اور کہا کہ تمھاری والدہ کسی بڑی آفت سے بچ گئی ہے۔ وہ کسی دیو کی آفت تھی تو والد صاحب نے ان کو سارا قصہ سنایا بہر حال اس نے ایک تعویز اور کچھ دم دعا کر کے دیا اور اس کے بعد دادی کو فوراََ افاقہ ہوا اور آہستہ آہستہ اللہ کے فضل سے ٹھیک ہو گئی۔ ایک خاتوں کی بہادری کی مثال اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتی ہے کہ ایک گھوڑا جو کہ خود بھی ایک دیو کی طرح ہو تا ہے خوف ذادہ ہوا تھا۔ لیکن دادی اماں کو ہماری فکر تھی اور آیت الکرسی کی برکت سے اُس آفت سے ہم بچ گئے۔
للی خان کی کہانی: ہویلتی سلطان آباد کے شمونے دھ میں قوم شمونے کا ایک معتبر شخص للی خان تھا۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ موسم گرما میں رات کے تیسرے پہر وہ ہویلتی کے پہاڑوں میں آزاد چرائی کے لئے چھوڑے ہوے اپنے گھوڑی کو لانے گیا وہ ابھی گھر سے زیادہ دور نہیں گیا تھا پہاڑ پر ابھی چڑھنا شروع کیا تھا کہ اس کی نظر سندی کی طرف گیا دیکھا کہ آگ کا ایک بہت بڑا شعلہ دریا کی طرف آرہا ہے دریا جو کہ ہویلتی اور سندی کے درمیان سے گذرتا ہے دیکھتے ہی دیکھتے دریا پار کرکے وہ روشنی ہویلتی یعنی سلطان آباد کے حدود میں داخل ہو گیا ابھی وہ چند قدم بھی نہیں گیا تھا کہ وہ ایک عجیب مخلوق ایک بہت بڑے جسم اور منہ سے شعلہ نکل کر آسمان کی جانب جاتا ہوا چند قدم پر آکر رک گیا۔ للی خان کی ٹانگے کانپنے لگی اس نے ہزار کوشش کے باوجود آیت الکرسی نہ پڑھ سکا البتہ آیت لکرسی چُف آیت الکرسی چُف کرتا رہا اور اُسکے ساتھ ایک چھوٹا کتا بھی تھا وہ بھی ڈر کے مارے مالک کے ٹانگوں سے لپٹ لپٹ کر بھونگتا رہا یہاں تک کہ صبح کی آذان ہوئی اور صبح ہونے لگا تو وہ دیو یا ٓفت جو بھی تھا واپس گیا اور غائب ہو گیا للی خان ہانپتا کانپتا نیم بے حوشی کی حالت میں گھر پہنچ گیا اور سخت بخار میں مبتلا ہوا اور کہتے ہیں کہ اس کو بھی کسی عالم سے تعویز اور دم دعا کرایا گیا تو ٹھیک ہو گیا یہ واقعات لوگوں کا دیکھا بھالا ہے۔زیادہ دور کی بات نہیں۔ یہ سب آیت الکرسی کی برکت تھی کہ وہ بندہ دیو کا خوراک نہ بنا اور زندہ بچ گیا۔
بھوت پریت کا مکان:پھت یا جشتند کا گھر: آٹھکش کے صوبیدار میر یاقوت شاہ اور بولی خان کی دادی چترالی تھیں ماشا اللہ بہت بڑا قد تھا۔ سو سال سے زیادہ عمر پائی۔ یہ واقع اس دادی کی جوانی کا ہے۔ اس دادی کو بڑی دادی کہا جاتا تھا۔ کہتے ہیں کہ ایک دن اُن کا بھیڑ دیر تک گھر نہیں آیا، اس علاقے میں ایک بہت بڑا رقبہ بڑے بڑے پتھروں سے اٹا پٹا ہے۔ جن کو نوہ غوشو یا نوہو دییر یعنی نوہ کے پتھروں کا ڈیر کہا جاتا ہے اور اس کا بہت بڑا حصہ ان لوگوں کی ملکیت ہے۔ بڑی دادی بھیڑ کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے بہت دور نکل گئی اور ایک بہت بڑے پتھر کے نیچے غار میں آگ کے شعلے نظر آگئے۔ بڑی دادی اس پتھر کے غار کے دہانے پر گئی تو اُس کو ایک بوڑھی اور ایک جوان عورت نظر آئیں۔ بڑی دادی کو دیکھ کر اُس بوڑھی نے خوشی کا ظہار کیا اور بڑی دادی کو اپنی گھر میں دعوت دیا اور کہا کہ آجاؤ، آجاؤ آپ کی قدم نیک ہیں آپ کا آنا باعث برکت ہے کہ میری بہو نے ایک بیٹا جنم دیا ہے۔ آجاؤ دادی جب اُ ن کی اس غار نما گھر میں داخل ہوئی تو دیکھا کہ اُن کے بھیڑ کو ذبح کیا گیا ہے اور اگلہ ٹانگ کاٹ کر سالن بنایا گیا ہے۔ ابھی ٹھوڑی دیر ہی نہیں ہوئی تھی کہ بوڑھی نے دادی کو کہا کہ اوہو میرا بیٹا آرہا ہے آپ ادھر آجاؤ اس کمبل کے نیچے بیٹھ جاؤ جب بڑی دادی اس کمبل بروشاسکی میں گھلی۔ کھوار میں جِل کو اوڑھنے لگی تو دیکھا کہ یہ اُن کا پنا کمبل ہے یہ دیکھ کر پریشان ہو گئی اور بوڑھی نے گھی میں تل کر گیالچنگ (روٹی) کھانے کو دیا تو دادی نے اس کمبل کے ساتھ ہاتھ صاف کیا اور جب اپنے گھر جاکر دیکھا تو واقع اس کے کمبل کے ساتھ ہاتھ پونچنے کی وجہ سے گھی لگا تھا، وہ بھی نظر ارہا تھا۔ اتنے میں بوڑھی کا بیٹا آ گیا اور اُف اُف کرتے کہنے لگا کہ انسان کی بدبو آرہی ہے۔ اس گھر میں کون آیا ہے۔تو اُس کی مان نے اُس کی منت ترلے کرنے لگی کہ دیکھو ان کا آنا تمھارے لئے نیک شگون ہوا ہے اور تمھارا بیٹا پیدا ہوا ہے۔ اس لئے اُس کو کچھ نہ کہنا۔ اور اپنے بیٹے کی منت سماجت کر کے گھر سے کسی کام کے بہانے باہر بھیجا اور بڑی دادی کو کہا آجاؤ جلدی جلدی چلے جاؤ تو دادی نے کہا کہ تم نے میری بھیڑ کو ذبح کیا ہے میں گھر کیا لے کر جاؤں گی تو بوڑھی نے ایک لکڑی کا ٹانگ بنا کر اُس کو اور باقی تمام گوشت کو بھیڑ کی چمڑی میں ڈال کر اُس کو ہانکا تو وہ زندہ ہو کر باہر نکل گئی تواُس غار والی بوڑھی نے دادی کو کافی سار ا کوئلہ دیا اور کہا کہ ان کو سنبھال کر گھر لے جاؤ اور پیچھے مڑ کرنہیں دیکھنا اور بڑی دادی ڈر کے مارے دوڑ دوڑ کر بھیڑ کو لے کر گھر جب پہنچ کر دیکھا تو صرف دو کوئلے بچ گئے تھے اور وہ موتی بن گئے تھے۔ جب دادی گھر پہنچ گئی تو ان کی خاوند نے ان کو ڈانٹا کہ اتنی دیر کدھر رہی تو دادی نے اپنی صفائی میں سارا واقع سنایا اور ثبوت کے طور پر وہ دو موتی اور اپنا کمبل (گھلی) کو دیکھایا جس کے ساتھ دادی نے بوڑھی کے گھر میں گھی لگا ہاتھ صاف کیا تھا اور ساتھ ہی یہ کہا کہ بھیڑ کو ذبح کر کے دیکھو اس کا اگلہ ران نکال کر اُس بوڑھی نے کھایاہے اور لکڑی کا بنا کر ڈالا ہے اور بعد میں جب اُس بھیڑ کو ذبح کیا گیا تو واقع اس کا ایک ٹانک کی ہڈی کے جگہ لکڑی تھا۔ اور وہ دو موتی آ ج بھی اِس خاندان میں موجود ہیں۔ ( اللہ عالم با الصواب)
جاوید احمد ساجد (سلطان آبادی) یاسین
حال راولپنڈی
تحریر: 20/08/2020
سورس، میری اپنی یاداشت، اور خاندانی ذرایع آٹھکش