کالاش قبیلے کا معروف مذہبی تہوار چلم جوشٹ اپنی تمام رنگینیوں کے ساتھ اختتام پذیر

چترال (نذیر حسین) کالاش قبیلے کا معروف مذہبی تہوار چلم جوشٹ (جوشی) پیر کی شام اپنی تمام رنگینیوں کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ تہوار کے اختتامی تقریب کے مہمان خصوصی کالاش قبیلے سے تعلق رکھنے والے معاون خصوصی وزیر اعلی خیبر پختونخوا وزیرزادہ تھے۔ جبکہ کمشنر ملاکنڈ شوکت علی یوسفزئی ڈپٹی کمشنر چترال انوار الحق،کئی سرکاری آفیسران غیرملکی اور ملکی سیاحوں نے فیسٹول میں شرکت کی۔ فیسٹول کیلئے فل پروف سکیورٹی کے انتظامات کئے گئے تھے۔ اور باہر سے بھی پولیس طلب کئے گئے تھے۔ فیسٹول کے آخری روز وادی بمبوریت کے تمام دیہات پہلواناندہ، انیژ، برون، بتریک اور کراکال میں حسب روایت مردو خواتین نے صبح سویرے ہی تہوار کے گیت گانے اور ڈھول بجانے کا عمل شروع کیا۔ اور بتدریج جب تمام گاوں کیچھوٹے بڑے جمع ہو ئے۔تو بڑے (چھارسو) ڈانسنگ پلیس کی طرف ٹولیوں میں گیت گاتیناچتے اور قہقہے لگاتے سیٹیاں بجاتے روانہ ہوئے۔ اور مرکزی مقام بتریک تک پہنچے۔ بترک گاوں کو کالاش قبیلے کا مذہبی اور تاریخی مقام ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اور کالاش تاریخ کے مطابق یہ مقام کالاش حکمران راجہ وائے کا پایہ تخت رہا ہے۔ چلم جوشٹ میں شامل کالاش لڑکے، لڑکیاں اور مردو خواتین نے سب سے پہلے حھوٹے چھارسو میں رقص کیا۔ اور دوپہر کو حسب روایت انتہائی شان وشوکت سے بڑے چھارسو میں داخل ہوئے۔ ڈانسنگ پلیس میں تماشئیوں اور سیاحوں کا اتنا رش تھا۔ کہ بیٹھنے کی جگہ کم پڑنے اور دیکھنے کی سہولت نہ ملنے کی وجہ سے کئی سیاح جن میں فارنر بھی شامل تھے۔ واپس چلے گئے۔ تاہم اس مرتبہ بڑی تعداد میں غیر ملکی مہمانوں نے تہوار میں شرکت کی۔ لوئر چترال انتظامیہ کی طرف سے کالاش لوگوں کیلئے ڈانسنگ پلیس کے قریب ہی پہلی مرتبہ کھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔ جس پر مقامی لوگوں نے ضلعی انتظامیہ چترال کا شکریہ ادا کیا۔ اور یہ مطالبہ کیا۔ کہ مستقبل میں کالاش کمیونٹی کے
کھانے میں مزید بہتری لائی جائے۔ فیسٹول میں پاکستانی سیاح خواتین ایک بڑ ی تعداد شریک تھی۔ جنہوں نے کالاش لباس زیب تن کرکے فیسٹول کی خوشی کو انجوائے کیا۔ جبکہ مرد سیاح نے روایتی پر والی چترالی ٹوپی پہنے ہوئے تھے۔ اور ان سیاحوں کاتعلق پاکستان کے بڑے شہروں سے تھا۔ فیسٹول کیلئے چترال ٹریفک پولیس کی طرف سے بہترین حکمت عملی ترتیب دینے کے نتیجے میں اور ہر مقام پر ٹریفک ورڈن کی موجودگی کی بدولت ٹریفک روانی بلا کسی رکاوٹ کے برقرار رہی۔ اور سیاحوں کو آنے جانے میں زیادہ مشکلا ت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ فیسٹول میں یہ دیکھا گیا۔ کہ سرکاری آفیسران کو غیر ضروری پروٹوکول دیتے ہوئیسیکیورٹی کے جوان سیاحوں کے ساتھ تیز تند رویہ اپناتے رہے۔ جس پر کئی سیاحوں نے اس رویے کو انتہائی نامناسب قرار دیا۔ اسی طرح فیسٹول کے دوران کالاشہ دور میوزیم بمبوریت میں یہ بڑی خامی دیکھنے میں آئی۔ کہ اس میوزیم ایک مقامی کالاش نوجوان اکرام حسین جو فارنرز اور ملکی سیاحوں کو کالاش تاریخ و تہذیب وثقافت کے بارے میں بریفنگ دینے میں یدطولی رکھتے تھے۔ اور سیاح اس کی بریفنگ متاثر ہوئے نہیں رہتے تھے۔ اس کی جگہ پر ایک ایسے اہکار کا تعین کیا گیا ہے۔ جن کے پاس کالاش تہذیب و ثقافت کے بارے میں نالج نہ ہو نے کے برابر ہے۔ اس کمی کو سیاحوں نے انتہائی طور پر محسوس کیا۔ سیاحوں نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہارکیا ہے۔ کہ اتنے بڑے ایونٹ کیلئیلوگ دنیا کے کونے کونے سے آتے ہیں۔لیکن حکومت پاکستان خصوصا صوبائی حکومت کی طرف سے سیاحوں کو سہولت دینے خاص کر سڑکوں کی حالات بہتر بنانے کیلئے اب تک کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ اور نہ سیاحت کیلئے کوئی منظم منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے۔ کہ غیر منظم سیاحت فروغ پارہی ہے۔ اور سیاحوں کو رہائش کیلئے کمرے نہیں مل رہے۔ اور علاقہ ماحولیاتی آلودگی کی لپیٹ میں ہے۔ جس کیلئے منظم اقدامات کی فوری ضرورت ہے۔ کالاش قبیلے کا چلم جوشٹ تہوار ہر سال ماہ مئی کے دوسرے عشرے میں منایا جاتا ہے۔ یہ تہوار ہزاروں سالوں سے انتہائی عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے۔ اور مقامی مسلمان کمیونٹی کے لوگوں کے بھر پور تعاون سے یہ فیسٹول خوشگوار ماحول میں انجام پاتا آرہا ہے۔ جوشی فیسٹول میں کالاش قبیلے کے تمام لوگ نئے کپڑے تیار کرتے ہیں۔ اور مرد ٹوپی و گلے میں چیہاری ڈالتے ہیں۔ جو کہ رن برنگی دھاگوں سے تیار کیا جاتاہے۔تاہم مردوں کے لباس بازاروں میں درزی تیار کرتے ہیں۔ لیکن خواتین کا لباس بالکل منفرد ہے۔ ایک جوڑا کم سے کم بیس دن میں تیار ہوتی ہے۔ اس لئے کالاش خواتین چھ مہینے قبل لباس کی تیاری شروع کرتی ہیں۔ کیونکہ دس دس گز سیاہ کپڑے کا ایک جوڑا تیار ہوتا ہوتاہے۔ جس پر کئی رنگوں کے دھاگوں سیکشیدہ کاری کی جاتی ہے۔ اور یہ لباس کالاش خواتین خصوصا لڑکیوں کے حسن کو چارچند لگا دیتی ہیں۔ حالیہ فیسٹول کیلئے مزید جدید ڈیزائن میں لباس تیار کئے گئے تھے۔ اور یہ لباس بہت خوشنما لگ رہے تھے۔ کالاش لڑکیوں نے نئے لباس پہن کر چھارسو میں چلم جوشٹ کی خوشی میں ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے ہوئے نہ صرف مزہبی رسم ادا کی بلکہ نئے لباس کی نمائش کی۔ جسیسیاحوں نے بہت سراہا ہے۔ اور بڑے پیمانے پر ان لباس کی خریداری بھی کی۔ چلم جوشٹ تہوار اس مرتبہ بھی بہت جوش و خروش سے منایا گیا۔ اور کالاش قبیلے کا یہ تہوار تین دن جاری رہنے کے بعد پیر کی شام بمبوریت میں اختتام پذیر ہوا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں