” فکر اقبال اور آزادی ”
تحریر : فیض اللہ فراق
فکر اقبال کے طلاطم خیز موجوں میں تھپیڑے کھانے والی آج کی نسل کو شاھد اس بات کا علم کم ہے کہ اقبال کے تصورات میں مرد مومن، خودی ، بیخودی ، عشق اور روح کے افکار یکجا ہو کر ایک ایسی آزادی کے مرکز میں قیام پذیر ہوتے ہیں جہاں ذات ، وجود ، فرد اور آگے بڑھتے ہوئے افراد ، قوم اور ملت کی تسبیح میں پرونے والی طاقت کا استعارہ بن جاتے ہیں ، افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اقبال کی شاعری میں فارسی کا رنگ غالب ہونے کی وجہ سے عام آدمی کی فہم سے کوسوں دور ہے مگر سمجھنے والے جانتے ہیں کہ فکر اقبال اصل میں حریت فکر کا نام ہے ، اقبال کے کلام میں موجود کمٹمنٹ، تڑپ اور جستجو ماورائے عقول سرحدوں کی ترجمان ہے، وہ انسان کو اپنے باطن میں جھانکے کا درس دیتے ہوئے نفس سے خود کو آزاد کرنے کے رستے کا پتہ بتاتا ہے ، نفس سے چھٹکارے کے بعد اقبال فرد کو ایک تربیت یافتہ انسان کی روپ میں دیکھتا ہے۔ اقبال کہتے ہیں
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
جب تک انسان اپنا نہیں بنتا وہ کسی کا بھی نہیں بن سکتا اور اپنا بننے کیلئے اولین تقاضا نفس سے آزادی ہے، اقبال کے نزدیک انکے فلسفہ خودی کو فرد کے وجودی تربیت کے تین مراحل اطاعت، ضبط نفس اور نیابت الہٰی سے گزارنے کے بعد وہ سماج کا آزاد فرد بن جاتا ہے اور یہی سے شروع ہونے والا آزادی کا سفر حقیقی آزادی کا محرک بن جاتا ہے، گزشتہ دنوں سٹوڈنٹس ویلفئر آرگنائزیشن گلگت بلتستان چیپٹر کے زیر اہتمام ” فکر اقبال اور آزادی ” کے خوبصورت موضوع پر گلگت کے مقامی ہوٹل میں ایک پرمغز سیمینار کا اہتمام کیا گیا، سیمینار سے سابق وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن ،وائس چانسلر قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی ڈاکٹر عطا اللہ شاہ، ایم ایس او کے مرکزی ناظم اعلی سردار مظہر ، متحدہ طلبا محاذ کے صدر عبید عباسی، سابق ڈپٹی سپیکر جعفر اللہ خان ، راقم اور دیگر نے متعین موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ، مذکورہ ویلفئیر کی کاوشیں داد کی مستحق ہیں جنہوں نے آج کے اس نفسانفسی کے عالم میں بھی فکر اقبال اور آزادی جیسے موضوع پر لب کشائی کا موقع فراہم کیا ،دراصل اقبال نے ملت کی آزادی کا خواب دیکھا تھا مگر پھر اس نے برصغیر کے مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل زمین کے ایک ٹکڑے کے حصول کو غنیمت اسلئے جانا کہ پہلے اس ٹکڑے کو اسلام کی لیبارٹری بنائی جائے بعد میں ملت کے انمٹ تصور کو عملی جامہ پہنانے کیلئے امت مسلمہ کی رہبری کی جائے، اقبال کا خواب آج بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوا ہے اس خواب کی تعبیر کیلئے ہمیں ایک مظبوط، پرامن ، خوشحال اور باوقار پاکستان کو لیکر آگے بڑھنا ہوگا جس کیلئے ہمیں عصبیت ، صوبائیت ،لسانی نفرت، مسلکی منافرت اور فرقہ وارانہ انتشار سے باہر نکلتے ہوئے ایک مسلمان اور صرف پاکستانی بن کر اپنے اپنے حصے کی روشنی کرنی ہوگی ، 9 نومبر کو اب دوبارہ سرکاری سطح پر بھی یوم اقبال کے طور پر منانے کا فیصلہ ہوا ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اقبال ڈے کو محض چھٹی کے طور پر مناتے ہوئے محنت ،لگن، کام اور زمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کریں بلکہ اس دن ساری دنیاوی فرائض سے آزاد ہوکر اپنا محاسبہ کریں ، اپنے گریبانوں میں جھانکیں ،کیا ہم 24 کروڑ پاکستانی اپنی اپنی حدود میں زمہ داریوں کو ایمانداری اور سچائی سے نبھا رہے ہیں ؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر پہلے خود کو نفس سے آزاد کرنے کی ریاضت اور آگے بڑھنے کی جسارت کریں یہی اس دن کی خیرات اور فکر اقبال کا صدقہ ہے۔۔۔
