ہنزہ اور چین کے درمیان روابط
از قلم: ڈاکٹر نیک عالم راشد
اگرچہ ہنزہ اور چین کے مابین روابط کی تاریخ بہت پرانی ہے لیکن اس کا باقاعدہ آغاز میر آف ہنزہ خسرو خان ابن شہ بیگ کے عہد حکومت میں ہوا۔جرمن محقق ہرمان کروٹزمان (Hermann Kreutzmann) کے بقول، 1761ء میں خسرو خان کے بیٹے سلیم خان، جو بعد میں ہنزہ کے میر بنے، اپنے والد کا نمائندہ بن کر چین گئے اور خاقان چین سے ملاقات کی اور ہنزہ چین دوستی اور سفارت کاری کی طرح ڈالی۔ اس سے پہلے، بقول قدرت اللہ بیگ، دونوں ملکوں کے داروغہ کی آمد و رفت ہوتی تھی اور سلیم خان کی اس سفارت کاری کے نتیجے میں داروغہ کی جگہ ایلچی کا تقرر عمل میں آیا۔ اس دوستی اور سفارت کاری کے عوض آپس میں تحائف کے تبادلے کا معاہدہ طے پایا۔ چنانچہ خان اعظم اس کے عوض سالانہ ایک مخصوص مقدار میں (قدرت اللہ بیگ کے بقول، سولہ تولہ) سونا بطور باج و خراج میر ہنزہ سے وصول کرتا تھا۔ یہ واجب الادا سونا اور دیگر تحائف خیر سگالی کے ایک خط کے ساتھ میر اپنے نمائندے، جسے اب بجائے داروغہ کے ایلچی کہا جاتا تھا، کے ذریعے یارقند میں متعین خاقان چین کے نمائندے کو سالانہ ادا کرتا تھا۔ ان تحائف کو وصول کرنے کے بعد خاقان معاہدے کے مطابق میر ہنزہ کو خیر سگالی کے جوابی خط کے ساتھ دیگر اشیاء، جیسے، بقول قدرت اللہ بیگ، سوتی اور ریشمی کپڑے، چینی کے برتن اور سبز چائےاور کالی چائے کے تختے، اس کے نمائندے کے ساتھ بھیجتا تھا۔ اس طرح ان دونوں ریاستوں کے مابین تعلقات مستحکم اور خوشگوار رہتے تھے۔ سفارت کاری اور خوشگوار تعلقات کا یہ سلسلہ میر صفدر علی خان (عہد حکومت 1886 تا 1891) کے دور حکومت تک جاری رہا۔
لیکن ہنزہ و چین کے درمیان پہلے سے موجود دوستی اور تعلق میں تغیر اس وقت رونما ہوا جب 1891ء کے اواخر میں نگر اور ہنزہ پر انگریزوں نے قبضہ کرلیا۔ اس قبضے کے بعد چین ہنزہ سفارت کاری کا باب بند ہوا۔ کیونکہ اس کے بعد ہنزہ با الواسطہ برطانوی حکومت ہند کی عملداری میں چلا گیا۔
لیکن جب 1947ء میں بر صغیر ہند دو حصوں میں بٹ گیا اور پاکستان معرض وجود میں آیا تو میر آف ہنزہ میر محمد جمال خان (متوفی۔ 1976ء) نے ریاست اور باشندگان ریاست کی قیادت و نمائندگی کرتے ہوئے سب سے پہلے ہنزہ کا الحاق پاکستان سے کیا۔تب سے اب تک ہنزہ سمیت پورا گلگت ۔ بلتستان پاکستان کی عملداری میں ہے۔
تاہم، قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد جب پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات کے قیام کا مرحلہ آیا تو ہنزہ اور چین کے مابین اس قدیم تاریخی تعلق اور رابطے نے بالوسطہ مثبت کردار ادا کیا اور اس وقت کے میر ، بلکہ آخری میر ہنزہ، میر محمد جمال خان (وفات۔ 1976ء) سے اس سلسلے میں مدد و اعانت حاصل کی گئی۔ میر موصوف نے اس وقت کی حکومت پاکستان کے ساتھ بھر پور تعاون کیا اور بساط بھر اخلاقی، سفارتی اور انتظامی مدد بہم پہنچائی۔ اس طرح یہ قدیم رابطہ اب پاکستان اور چین کے درمیان رابطے کی صورت میں استوار ہوا بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان یہ تعلق و رابطہ دن بدن مستحکم ہوتا رہا اور اب پاک چین دوستی شہد سے میٹھی، ہمالیہ سے اونچی اور سمندر سے زیادہ گہری ہے۔
اس مضمون کی تیاری میں مندرجہ ذیل کتابوں سے مدد لی گئی
1۔ قدرت اللہ بیگ۔ ‘ تاریخ عہد عتیق ہنزہ ‘، حصہ اول
2۔ Ahmad Hasan Dani. History of Northern Areas of Pakistan
3۔ Hermann Kreutzman. Hunza Matters, 2020
