104

” تقسیم بنگال : ایک قومی سانحہ “

” تقسیم بنگال : ایک قومی سانحہ ”
تحریر : فیض اللہ فراق
یہ ایک بہترین موقع تھا جب آرمی انسٹیٹوٹ آف ملٹری ہسٹری کے زیر اہتمام تقسیم بنگال کے موضوع پر ایک پرمغز مشاورتی اجلاس بلایا گیا ، اجلاس میں ملک بھر سے 40 سے زائد جامعات کے وائس چانسلرز سمیت دانشوروں، بیوروکریسی کے اعلی عہدیداران ،مصنفین, منصفین اور تقسیم بنگال کے عینی شاہدین سمیت ریٹائرڈ و حاضر سروس فوجی افسران شریک ہوئے۔ یہ اجلاس اپنی نوعیت کا اہم اور ثمر آور تھا جس میں پہلی بار تقسیم بنگال کے گمنام گوشوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ، اس دردناک سانحے کے محرکات سمیت بطور قوم ہماری کوتاہیوں پر بھی کھل کر گفتگو ہوئی ، تقسیم بنگال کے تمام حقائق دشمن کو گواہ بنا کر پیش کئے گئے ، 1971 میں اس زمانے کے بھارتی فوج کے سربراہ کے بیانات کے مطابق یہ ایک ایسی جنگ تھی جس میں بھارتی فوج نے 9 مہینے سے تیاری کی تھی اور بھانی مکتی کے لاکھوں باغیوں نے بھارتی فوج سے ملکر پاکستان کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا تھا ، بھارتی آرمی چیف کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی فوج نے بڑی دلیری کے ساتھ جنگ لڑی مگر پاکستان سے ہزاروں میل فضائی و زمینی فاصلے کی دوری پر واقع بنگال میں پاکستانی فوج کیلئے جنگ لڑنا ایک کھٹن کام تھا ایسے حالات میں کرنل سلطان محمود راجہ جیسے فوجی افسران نے پھر بھی ہار نہیں مانی بلکہ آخری سانس تک لڑتے رہے اور شہادت کو ترجیح دی ، تقسیم بنگال کے انگنت وجوہات ہیں جن میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے بنگالیوں کو کم تر سمجھا ، ہماری بیوروکریسی بنگال میں حاکم بن کر اتری جبکہ ہمارے سیاستدان بنگال کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے سے انکاری تھے، ممکن ہے وسائل کا منصفانہ تقسیم بھی نہ تھا اور نہ ہی لسانی بنیادوں پر انصاف کا مزاج قائم تھا مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بنگال فطری طور پر ہمارا حصہ نہیں تھا ، یہ علاقہ اتنا دور تھا کہ وہاں کے معاملات پر نظر رکھنا ایک مشکل امر تھا جبکہ دوسری جانب مجیب الرحمن کا جھکاؤ بھارت کی طرف تھا ،یہی وجہ تھی جو دشمن کو ہماری کمزوریوں سے فایدہ اٹھانے کا موقع ملا اور پاکستان ٹوٹ گیا جس کا فائدہ بھی بھارت کو گیا مگر بعد ازاں ایک سوال ہمارے لئے ہمشہ سے تشنہ طلب رہا کہ تقسیم بنگال کا زمہ دار کون تھا ؟ اور ہم نے اس سانحے سے کیا سیکھا ؟
یہ وہ سوال ہے جس کا درست جواب حقائق اور تحقیق کی روشنی میں ممکن ہے ، یہ سوال جزباتی رویے سے حل نہیں ہوگا اور نہ ہی جانبدار مزاج سے یہ مسلہ حل ہوگا ، یہ سوال مکمل چھان بین اور سچائی کی عینک لگا کر دیکھنے سے حل ہوگا ، تاریخ کے ادنی طالب علم کی حیثیت سے تقسیم بنگال کے حوالے سے اصل حقائق کا ادراک راقم کو 14 دسمبر 2022 کو آرمی انسٹیوٹ آف ملٹری ہسٹری کے زیر اہتمام منعقدہ مشاورتی اجلاس میں ہوا اتنا کبھی بھی نہیں ہوا تھا ، اس فورم کے توسط سے ہمیں حقایق جاننے کا موقع ملا اور ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ آج ہمیں الزامات کی گیم سے باہر نکلنا چاہئے اور یہ سوچنا پڑے گا کہ بطور قوم تقسیم بنگال ایک قومی سانحہ تھا جس میں کوئی فرد واحد یا کسی ایک ادارے کی غلطی نہیں بلکہ ہم سب اس سانحے کے برابر مجرم ہیں ، یہ ہماری قومی تاریخ کا سیاہ باب ہے جس سے ہمیں سبق لینے کی ضرورت ہے ، آج بھی بلوچستان سے لیکر کراچی اور فاٹا سے لیکر خنجراب تک مختلف طبقات کی محرومیوں اور چھوٹے چھوٹے صوبوں و علاقوں کے مسائل کو خرابی سے پہلے سنجیدہ لیکر حل کی جانب قدم بڑھانے کی ضرورت ہے ، ایک خودمختار پاکستان کا استحکام اس وقت ممکن ہے جب اس ملک سے جڑے تمام یونٹس میں بسنے والے افراد کی یکساں دلجوئی کو یقینی بنائی جائے، بیوروکریسی کو حاکمانہ کردار سے باہر نکلتے ہوئے عوامی سرونٹ کا لباس پہننا پڑے گا، افواج کو سیکورٹی سمیت دفاع وطن کا پہرہ پہلے سے زیادہ مربوط کرنا ہوگا ، منصفوں کو بروقت انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا ،سیاست دانوں کو کرپشن سے باہر نکل کر اپنے مزاج میں انکساری لاتے ہوئے اپنے فرائض کو ایمانداری سے ادا کرنا ہوگا، قلم قبیلے کو قلم کی حرمت کا خیال رکھنا ہوگا، مذہبی اکابرین کو صرف اللہ اور رسول کے درست احکامات اور تعلمیات کو عوام تک پہنچانے کا فریضہ ادا کرنا ہوگا اور قوم کے چھوٹے سے لیکر بڑے تک تمام افراد احساس زمہ داری کے ساتھ اپنے اپنے دائروں میں رہتے ہوئے جھوٹی اناؤں کو ذبح کرنا ہوگا اور ایمان داری کے ساتھ اپنا اپنا کام کرنا ناگزیر ہے جبکہ قانون و انصاف کی یکساں عملداری اور میرٹ کی بالادستی کو یقینی بنانا ہوگا تب ہمیں وہ نتائج ملیں گے جس سے ہم اخذ کر لیں گے کہ ہم نے سانحہ بنگال سے کچھ نہ کچھ سیکھا ہے ۔اخر میں ملٹری انسٹیوٹ آف آرمی ہسٹری کے ڈی جی ، جنرل(ر) آغا مسعود اور ڈاریکٹر بریگیڈر ( ر) ناصر شفیق اور انکی پوری ٹیم کو اس نوعیت کے خوبصورت ،معلوماتی،پرمغز اور شاندار مشاورتی اجلاس کے انعقاد پر خصوصی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور ان کیلئے ڈھیر وں دادو تحسین کہ انہوں نے مذکورہ ادارے کے زیر اہتمام قومی و تاریخی موضوعات پر مثبت مکالموں کا آغاز کیا ہے اور یقین جانئیے جو قومیں مکالموں سے صحت مند شعور کو پروان چڑھا سکتی ہیں وہ کسی اور نوعیت کی سرگرمیوں سے ممکن نہیں ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں