مکسچر حکومت کے لیے خالص معاشی مشورہ
ڈاکٹر ذاکر حسین ذاکرؔ
اگرچہ میں کوئی معیشت دان، یا حکومتی مشیر تونہیں ہوں ، لیکن ایک با شعور شہری ہونے کے ناطے ملکی معاملات سے بالکل علیحدہ بھی نہیں رہ سکتا، کیونکہ بھگتنا ہم سب نے ہے، اور بگھت رہے ہیں۔ لفظ ’بگھتنے‘ پر کچھ اور جملے کی بورڈ key boardسے باہرتشریف لانے کو مچل رہے ہیں، بہتر ہے ان کو فوراً دبا دیا جائے ورنہ کالم موضوع کی بجائے کہیں اور نکل جائے گا، چہ جائیکہ ہم خود کہیں نکل پائے یا نہیں، کالم کہیں بھی نکل سکتا ہے۔
اس کالم میں پیش کردہ مواد یا نکات خالصتاً ذاتی رائے ہے، جن کا کسی اور کی ماہرانہ رائے یا تجزیے سے مماثلت محض اتفاقیہ ہوگی، یا آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ اِن صاحبان و صاحبات کی آرا ملتے جلتے ہیں۔ میں کوئی تکنکی لفاظی میں اپنے قارئین کو الجھانا نہیں چاہتا کچھ سیدھی سادھی گزارشات اور تجزیے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ اس ضمن میں اپنے سابقہ دو شائع شدہ کالم آرٹیکلز کا حوالہ ضروری سمجھتا ہوں تاکہ پس منظر سمجھنے میں آسانی ہو۔
میں نے اپنے سابقہ دومضامین میں لکھا تھا کہ خوش قسمتی یا بد قسمتی سے پاکستان کو واحد اسلامی نیوکلئیر ریاست ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ ایک معروضی زمینی حقیقت ہے جو چند دیگر حقائق کو جنم دے چکی ہیں اور دے رہی ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اس ریاست کو ایک انتہا پسند مذہبی ریاست کے طور پر پیش کرنے یا کرانے میں بیگانوں کے ساتھ اپنوں کا بھی بڑا اہم کردار رہا ہے۔ وگرنہ پاکستانیوں کی عمومی دینی کردار سے کون واقف نہیں؟ البتہ مذہبی ہر کوئی ہوگا۔ ماہرین مستقبلیات کے مطابق یہ ریاست تاریخ کے کسی بھی موڑ پر دنیا کی تاریخ کو تبدیل کرنے کا اہم کردار ادا سکتی ہے، یا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے،بشرطیکہ یہ بطور ایک آزاد ریاست قائم رہے۔ تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں،سمجھنے والوں کے لیے اشارہ کافی ہے۔ ہر زوال کی انتہا کے بعد ایک موقع نکتہ اچھال Bouncing Pointآتا ہے، شاید ہم اس نکتے کو چھونے جا رہے ہیں۔ اس نکتے سے جس قدر لچک کے ساتھ ٹکرائے تو اتنا ہی اوپر تک اچھل سکتاہے، اور جتنی کم لچک کے ساتھ ٹکرائیں تو وہیں گڑھے میں براجمان ہو کر رہ جانے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔لچک نہایت اہم ترین عامل ہے، پالیسی معاملات میں ، قانونی معاملات میں، حکومتی فیصلوں کے معاملات میں اور قومی رویوں کی تشکیل ِ نو معاملات میں۔ اگر ایک جملے میں خلاصہ عرض کر دوں تو کیا ہماری قومی مزاج میں اس قدر لچک موجود ہے کہ ہم چند دنوں میں 180 پر نہ سہی زاویہ قائمہ پر اپنے آپ کو قائم کر سکے ۔
اب چونکہ تاریخ کا وہ موڑ شاید بہت قریب آن پہنچا ہے تو اس ریاست کو غیر مستحکم کرنے کی سازشیں بھی اپنے عروج پرپہونچ چکی ہے۔ ایک طرف واویلا ہے کہ ملک معاشی طور پر دیوالیہ ہونے جا رہا ہے اور اس بیا نیے کو تقویت دینے کے لیے صحافی نما کارندوں کے ساتھ سیاسی نمائندے سبھی مصروف ہیں ، جس سے ایک طرف سیاسی مخالفین کی ناکامی ثابت کرسکیں تو دوسری طرف اپنے دوستوں کے ایجنڈے کی تکمیل بھی ہو۔ دوسری طرف ایک عجیب ملغوبہ حکومت عمل میں آئی ہے یا لائی گئی ہے جس کی بصیرت مرکوز نہیں ، معاشی معاملات اور قومی استحکام کے معاملات سے زیادہ سیاسی اتحاد کو برقرار رکھنا ان کی ترجیحات دکھائی دیتی ہیں۔ کابینہ شریف میں ماہرین اور ملکی مفادات پر نظر رکھنے والوں کی بجائے سیاسی عمائدین کے چہیتوں اور پارٹی مفادات کے ماہرین ، بے بصیرت وزرا کا مجمع نظر آتا ہے جن کے پاس موجودہ بحرانی کیفیت سے نکلنے کی شاید نہ قابلیت ہے، نہ کوئی حل موجود ہے، یاوہ اس طرح کا کوئی حل چاہتے ہی نہیں۔
وزرا، کابینہ حکومت وغیرہ وغیرہ کے پاس حل ہو یا نہ ہو، حل کرنا چاہیں یا نہ چاہیں، ہمیں اس سے کیا؟ بگھتنے والوں میں ہم سب ہیں ، اس لیے میری ذمہ داری ہے کہ کم از کم اپنی ذمہ داری پوری کریں۔ اب میں بغیر کسی مزید تمہید کے اصل تجاویز کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔
• یوں توپاکستان میں ہر قسم کے مال کی ذخیرہ اندوزی کی کافی مہارت اور تجربہ موجود ہے ، لیکن آج تک شاید کسی حکومت نے بوقت ضرورت بھی ڈالر کی ذخیرہ اندوزی پر کچھ کاروائی کا سوچا نہیں۔آج تک ملکی تاریخ میں ڈالر پر چھاپہ نہیں پڑا ۔ میرے خیال میں اب وقت آن پہنچا ہے بلکہ تیزی سے گزر رہی ہے کہ ملک بھر میں ڈالر ہارڈ کیش کی ذخیرہ اندوزی پر کریک ڈاؤن شروع کیا جائے۔جن کے پاس چارٹرڈ بینکوں کے علاوہ اپنے گھروں میں ہارڈ کیش موجود ہوں ، ان کو پانچ دنوں کی مہلت دی جائے کہ وہ اس عرصے میں فوراً بینکوں میں جمع کرادیں اور تمام بینک سٹیٹ بینک کو اس کی رپورٹ دیں۔ پانچ دنوں بعد چھاپہ شروع کردیں اور باخبر اداروں کی تعاون کے ساتھ حکومت بلا امتیاز ذخیرہ اندوزوں سے ڈالر بر آمد کریں۔ غیر کاروباری افراد کو ایک لاکھ تک اور بین الاقوامی کاروباری افراد کو پانچ لاکھ ڈالر تک رکھنے کی اجازت ہو، اس سے زیادہ جتنے بر آمد ہوں وہ حکومت اپنے متعین قیمت ادا کرکے خرید لیں ۔ اور ان ڈالروں کی قیمت ِخرید اس قدر ہو کہ مالک بالکل محروم بھی نہ رہے لیکن اسے ذخیرہ اندوزی کی اچھی بھلی سزا بھی ملے۔ یہ تجویز اس صورت میں ہے کہ اگر بندے کا آمدن واقعی اس کی قانونی آمدنی ثابت ہو۔ اگر ذخیرہ کیا ہوا ڈالر ، ان کی معلوم جائز ذرائع آمدن کی دگنے سے زیادہ ہو تو زائد رقم کو سیدھا سیدھا بحق سرکار ضبط کر لیا جائے۔
• مجھے لگتا ہے کہ ہمارے پالیسی ساز اداروں بالخصوص مالیاتی اداروں کی اہم مناصب پر ہمارے بیگانوں کے نمائندے براجمان ہیں جو ملک میں بیرونی کرنسی کی آمد پر اس قدر قدغنین عائد کی ہوئی ہیں کہ پاکستا ن کے محب وطن چاہتے ہوئے بھی ذرِ مبادلہ اپنے ملک نہیں بھیج سکتے ۔ ہمارے ملک میں بیرونی کرنسی میں اکاؤنٹ کھولنا اس قدر مشکل بنادیا گیا ہے، جیسے ملک میں پیسے آنا یا لانا کوئی بہت بڑا جرم ہو۔اس پر مزے کی بات یہ ہے کہ اسے ٹیرٹسٹ فنانسنگ سے جوڑ دیا گیا ہے۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ اگر کسی اکاؤنٹ میں کاروباری لین دین اور تفصیلات کے بغیر اچانک بڑے رقوم آجائیں تو ان کو نکالنے کا عمل دشوار بنا دیں اور اگر خدا نخواستہ وہ رقوم کسی دہشت گرد کاروائی کے لیے استعمال ہونی ہو تو اسے روک کر قومی فائدے کے امور میں خرچ کر دیں۔ اس طرح کی پالیسی یا پروسیجر اپنانا کوئی راکٹ سائنس نہیں ۔ فارن کرنسی اکاؤنٹ میں مشکلات کا نتیجہ ڈالرز یا یوروز کی ہارڈ کیش میں ذخیرہ اندوزی ہے اور ذر مبادلہ کی آسان نقل و حمل میں رکاوٹیں ہیں۔ حکومت سٹیٹ بینک کو فوری طور پر احکامات جاری کریں کہ بیرونی کرنسی میں اکاؤنٹ کھولنے کے عمل کو نہایت آسان مختصر اور شفاف بنائیں جس سے کوئی فرد یا فرم چند گھنٹوں میں مکمل کر سکے۔
• مجھے ماضی کے چند واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے ایک قانونی فیصلے پر تنقید کرنے میں جھجھک نہیں ہو رہی ۔ جب ریڈیو ایجاد ہوا، تو ہمارے بلتستان میں علمائے کرام کے درمیان ایک بڑا نزاع پیدا ہوا کہ کیا روئت ِ ہلال کے معاملے میں ریڈیو خبروں پر اعتبار کیا جا سکتا ہے یا نہیں ۔ کیا ریڈیو کو عادل گواہ تسلیم کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ پھر اس سے متصل دیگر دلچسپ مسائل سامنے آئے کہ اگر ریڈیو کو ایک عاقل بالغ گواہ تسلیم کر لیں تو اسے صرف ایک گواہ کا درجہ حاصل ہوگا یا کئی گواہوں کا؟ اگر اناؤنسر کوئی خاتون ہو تو اس صورت میں انہیں مرد گواہ کا درجہ دینا کس حد تک عدل پر مبنی ہوگا ؟ وغیرہ وغیرہ۔ امید ہے کہ آپ میرے لطیفوں کی لطیف نکتوں تک پہنچ چکے ہوں گے۔ اس وقت پاکستان میں کرپٹو کرنسی اور بِٹ کوائین کی کاروبار کو غیر قانونی قرار دیا ہوا ہے۔ میری معلومات کے کے مطابق شاید کسی نے اس ضمن میں قانونی ترمیم یا نظر ثانی کی درخواست نہیں دی کیونکہ یہ ٹیکنالوجی ارباربِ اختیار کی سمجھ میں نہیں آرہی۔ تو بہتر یہی سمجھا گیا کہ جب تک ہم اسے سمجھ نہ لیں ، اس پر پابندی جاری رکھی جائے ، وگرنہ کیا معلوم کل کو میرے ملازم کا نوجوان بچہ مجھ سے زیادہ کروڑ پتی بن جائے۔ لازمی بات ہے ایسی صورتحال سے ارباب ِ اختیار اوراقتدار کو خوف آتا ہے کیونکہ تخلیقی ذہانت کسی کی جاگیر نہیں ، کوئی بھی بہت آگے تک جا سکتا ہے اور یہ وہ خوف ہے جو نہ صرف ملکی آقاؤں بلکہ غیر ملکی بیگانوں کو بھی کھٹکتی ہیں، کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ پاکستانیوں کی تخلیقی صلاحیتیں جُگاڑ میں جس طرح ریکارڈ قائم کرتے ہیں ، اگر ان کو اس طرح کی کسی تخلیقی معاشی مواقع تک رسائی مل جائے تو نہ جانے کیاکر بیٹھے۔ لہٰذا آسان طریقہ یہی ہے کہ اس ملک میں اس طرح کی مواقع پر قانون پابندی عائد رکھی جائے تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ میرا مشورہ ہے کہ اس فیصلے پر محب وطن ٹیکنالوجی اور معاشی ماہرین کی رائے کے مطابق نظر ثانی کی جائے اور پاکستانیوں کو ذرا کھیلنے کاموقع دے کر آزما لیا جائے۔اربابِ اختیار کو اگر دلچسپی ہے تو ان جدید ٹیکنالوجیز میں ان کی ٹریننگ کی جا سکتی ہیں، لیکن نوجوانوں کو ٹیکنالوجی میں ڈُپکیاں لگانے کے مواقع دیے جائیں۔ پھر ان کی استعداد پر منحصر ہے کہ وہ خود ڈوبتے ہیں یا ملک کو بھی لے کر ابھرتے ہیں۔
میرے ان تین حقیر مشوروں پر عمل کرنے کے بعد اگر کوئی فرق نہیں پڑا تو آپ میرے خلاف کئی کالم نہیں کئی کتابیں لکھ ڈالیں، مجھے خوشی ہوگی ۔اگر کوئی خاص تجویز یا تبصرہ کرنا چاہیں تو خوش آمدید۔
