35

جیسی عوام ویسے حکمران

جیسی عوام ویسے حکمران
رخسانہ اسد لاہور
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
آج اس شعر سے شروع کرنے کامطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت تب تک نہیں بدلتا جو من و سلویٰ کےانتظار میں رہے اور محنت کرنےسے کتراتے اس لیے اللہ پاک کسی قوم پر شامت لانے کا فیصلہ کر لے تو پھر وہ کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتی”۔ آج اگر ہم خود بے ایمانی اور بددیانتی کو ترک کردیں، اور بغیر کسی مفاد و لالچ کے، لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں لانے والے بنیں، تو یقین کریں پھر وہ وقت دور نہیں جب نیک اور ایماندار حکمران میسر آئیں گے، ہمارا معاشرہ حقیقی اسلامی معاشرے کی تصویر پیش کرے گا اور پاکستان ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہو جائے گا۔اس کے برعکس افسوس ہم بحیثیت قوم قدرے کرپٹ ہو چکے ہیں۔ معاشرے کے ارکان اغراض کے غلام ہو چکے ہیں، لالچ، حرص، بد عنوانی اور خورد برد ہماری شناخت بنتی جارہی ہے۔ اگر بد عنوانی اور دھوکہ دہی کی بات کریں تو جس کو بھی موقع ملتا ہے وہ کرپشن کے کیچڑ میں ڈبکی لگا لیتا ہے۔ اگر کسی ملک کے لوگ اپنے اپنے حصے کا کام ایمانداری اور پوری لگن سے کریں تو اس ملک کا دنیا میں بول بالا ہو تا ہے، لیکن اگر اسی ملک کے لوگ اپنی جگہ بے ایمانی، کرپشن، ذخیرہ اندوزی کرنے لگیں گے تو اس ملک کے زوال کوکوئی نہیں روک سکتا۔ ہم ایک بار خود سے پوچھیں کہ ہم نے کتنی ایمانداری سے اپنے حصے کا کام کیا ہے؟ ہم نے اپنی دھرتی اور اپنے لوگوں کے لیے کیا کچھ کیا ہے؟ تو جواب بے ایمانی ہی آئے گا کیونکہ ملازم جاں کے دوران موبائل استعمال کرنا ،کام چوری کرنا وغیرہ یہ نہیں کہ ان کارناموں کا ذمہ دار باس نہیں کیونکہ باس یا تو تنخواہوں میں کٹوتی کرتا ہے یا بلوجہ جھڑکیں دیتا رہتا ہے۔ لوگ بات بات پہ حکمرانوں کو چور کرپٹ بے ایمان کتے ہیں مگر کبھی ہم نے اپنے گریبان میں نہیں جھانکا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے نااہل اور کرپٹ حکمران کیوں ہمارا مقدر بنتے ہیں۔ ہمارا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام پر معرض وجود میں آیا۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم ہر مقام پر اپنے تعصبات کے اسیر ہیں۔ ہم اپنے اپنے سیاسی لیڈروں کو پوجتے ہیں اور ان کی ہر غلطی اور جرم پر وکیل اور جج بن جاتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے ہر تفرقہ بازی سے اوپر اٹھ کر صرف مسلمان کے طور پر اپنی شناخت کو اختیار کریں۔ مگر اس ملک میں شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث علماء اور مساجد کے درمیان مسلمانوں کو ڈھونڈنا ایک مشکل کام ہے۔ خدا کی اس کھلی نافرمانی پر ہماری سزا ایسے کرپٹ حکمران ملنا ایک ادنیٰ سی سزا ہے۔ ہم عہد و امانت کی پاسداری کریں۔ ملاوٹ، ناپ تول میں کمی نہ کریں۔ جھوٹ نہ بولیں کسی پر الزام و بہتان سے پرہیز کریں۔ آقا دو جہاں نبیؐ کے اخلاق اور اسوہ کو اختیار کریں۔ اللہ کے بندوں کے لیے مسائل بڑھانے کےبجائے آسانیاں پیدا کریں۔ اس کی راہ میں مال خرچ کریں۔ والدین، رشتہ داروں، پڑوسیوں، ملازموں، مسافروں، یتیموں اور غریبوں کے ساتھ حسنِ سلوک کریں۔ اپنی ڈیوٹی پوری فرض شناسی کے ساتھ نبھائیں۔ قانون کی پاسداری کریں۔ اگر ہم نےتوبہ کرلی اور تعصبات سے باز آ گئے، ایمان و اخلاق کو اپنی زندگی بنا لیا تو اسی دنیا میں عروج و کامرانی ہمارا مقدر ہو گی جس کی وجہ سے پاکستان تو ترقی کرے گا اور ہر ایک کے چہرے پر مسکان نظر آئے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں