سوشل میڈیا حقیقت کے آئینے میں
سوشل میڈیا کی افادیت و اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے لیکن جس بے دھڑک انداز میں اس کا استعمال کیا جارہا ہے اس شتر بے مہار کے فوائد کم؛ نقصانات زیادہ نظر آرہے ہیں۔ آن لائن کاروبار اور آن لائن فاصلاتی نظام تعلیم کی اہمیت و افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ گھر بیٹھے بٹھائے تعلیم اور من پسند اشیاء کی خریداری اچھی بات ہے۔ صارفین کو ایسی سہولیات ملتی رہنی چاہئیں مگر ان سہولیات کے نام پہ دھوکہ دہی نامناسب بات ہے۔ دیگر کئی شعبہ جات میں آن لائن کاموں کی اہمیت سے قطعی انکار نہیں کیا جا سکتا مگر اس کے بے جا نقصانات سے بھی انکار ممکن نہیں۔
بہت سے بھاری تجربات کے بعد کہوں تو آن لائن کسی بھی کاروبار میں ہاتھ ڈالیں تو جان پہچان والے اور رجسٹر اداروں میں ہی ہاتھ ڈالیں، ورنہ آن لائن کاروبار کے اتنے نقصان سامنے آچکے ہیں کہ آن لائن کاروبار کو دور سے سے ہی دیکھنے میں بھلائی نظر آتی ہے۔ بڑی بڑی کمپنیوں اور اداروں کا نام لے کر لوٹ لیا جاتا ہے۔ بڑے بڑے ناموں سے پرفریب دعوے سراب نکلتے ہیں۔ رقم دوگنا کرکے، ڈالرز میں واپسی، کمیشن اور نجانے کس کس نام کے ہر طرف سوشل میڈیا پر جال بچھے ہوئے ہیں۔ پس ”اگر جینے کی خواہش ہے تو کچھ پہچان پیدا کر۔“
ہمارے ہاں جہاں بیشتر نوجوانوں میں آن لائن کاروبار کی جگہ آن لائن گیمز، آن لائن بے ہودہ ایپس بکثرت استعمال کرنے کی عادت ہوچکی ہے۔ اسی وجہ سے پلے سٹور پر اب ہر جگہ ایسی واہیات ایپس اور گیمز کی بھر مار نظر آتی ہے۔ فری فائر، پب جی، انسٹاگرام، یوٹیوب، فیس بک، بی گو لائیو سمیت نت نئی متعارف ہونے والی سینکڑوں ایپس اس کی ایک کڑی ہے۔ جہاں وقت کا ضیاع ہی بہترین مصرف ہیں۔ میرا برسوں کا تجربہ ہے کہ فیس بک کو عمومی طور پر لوگ ذاتی ایپ یا سیاسی و مذہبی جماعتوں میں انتشار کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ فیس بک پر جعلی ویڈیو اور پوسٹوں کی کثرت آپس میں تنازعات کی بڑی وجہ بن چکی ہے۔
ان ایپس کے ذریعے مقبولیت کے دو ہی طریقے سامنے آئے ہیں۔ کسی کی مخالفت پر مبنی پوسٹیں لگا کر لائکس، کومنٹس اور شئیر وصول کرنا یا بے حیائی، عریانی پر مبنی تصاویر و آزاد منشا خیالات کے ذریعے شہرت حاصل کرنا۔ فیس بک پر چوں کہ دیگر ایپ کی نسبت ہر قسم کی پوسٹ با آسانی اپلوڈ کی جاسکتی ہیں۔ اس لیے اس کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ عموما کسی ایک فرد نے کسی موجودہ مذہبی یا سیاسی شخصیت کے خلاف پوسٹس لگائی تو پھر کیا ہوتا ہے چاروں طرف نفرتوں بھرے یا اظہار یکجہتی سے بھرپور کومنٹس اور لائکس سے فیس بک بھر جاتی ہے۔
فیس بک استعمال کرنے والوں کے اکاؤنٹ اکثر غیر محفوظ ہوتے ہیں۔ لہذا جیسے جیسے لائکر، فالور اور شئیر بڑھتے جاتے ہیں فیس بک کے دیوانے پھولے نہیں سماتے۔ حالاں کہ اکثر نظروں سے گزرا کہ ان کی مقبول عام پوسٹیں ڈیلیٹ فار آل کردی جاتی ہیں۔ یہی حال ٹک ٹاک، انسٹاگرام ایپ کا بھی ہے اس میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں برسوں تک بے حیائی، سیر و تفریح کے نام پہ الٹے سیدھے انداز میں ویڈیوز بناتے رہتے ہیں۔ جس سے لاکھوں فین، فالورز اور لائکر بنتے چلے جاتے ہیں اور وہ دل ہی دل میں خوش ہوتے رہتے ہیں کہ ان کو لاکھوں لوگ پسند کرتے ہیں حالاں کہ حقیقی زندگی میں ان کا کوئی بھی فین، فالورز اور لائکر نہیں ہوتا ہے بلکہ اردگر اور گھر کے لوگ بھی ان کی ان گھٹیا حرکتوں سے تنگ آ جاتے ہیں۔
سوشل میڈیا کے بے دریغ استعمال نے ہم سے رشتے، تعلق اور برادریاں تک چھین لی ہیں۔ بدقسمتی سے پچھلے کچھ عرصے جس خونخوار انداز میں سوشل میڈیا نے ہماری نسل نو کی تربیت کی اور وہ جس خاص سوشل میڈیائی سوچ کے تحت پروان چڑھے ہیں، اس کے خوف ناک نتائج برآمد ہونا شروع ہوچکے ہیں۔ اب معاشرے میں چھوٹے بچے اور بچیوں تک کی عزت غیر محفوظ ہوچکی ہے۔ ایسے میں سوشل میڈیا پر قواعد و ضوابط کا اطلاق ضروری ہوچکا ہے ورنہ یہی صورتحال رہی تو ہمارے گھروں میں کسی کی بھی عزت محفوظ نہ رہے گی۔
مناسب یہی ہو گا ارباب اختیار اس سمت سوچیں اور کچھ قواعد متعین کریں۔ اگر کوڈ کی جگہ شناختی کارڈ نمبر کے ذریعے ہر ایپ کو کھولنے کےلیے ضروری قرار دیا جائے تو کافی حد تک جرائم اور نسل نو کے سوشل میڈیا کے بے دریغ استعمال پر وقت طور پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ سوشل میڈیا وہ شتر بے مہار ہے جو صرف وقت نہیں زندگیاں بھی برباد کررہا ہے۔ محنت سے جان چھڑانے، شارٹ کٹ ڈھونڈنے اور نفرت کے پھیلاؤ میں اس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔
آپ بھی اگر سوشل میڈیا کے رسیا ہیں تو ملتمس ہوں کہ وقت برباد نہ کریں۔ استعمال بہت ضروری ہے تو صرف مثبت حد استعمال کریں۔ ٹک ٹاکرز کے اچھلتے کودتے لوگوں کی ویڈیوز کو اگنور کریں اور نفرت کا پرچار بند کریں۔ ویسے اگر تمام نفرت پھیلانے والے اکاؤنٹس کو رپورٹ کر دیا جائے اور امن کی شمع جلائیں تو ہر طرف نفرتوں کے گرم بازاروں میں کچھ کمی لائی جاسکتی ہے۔
