پانی پانی! پھر سیلاب
ڈاکٹر ذاکر حسین ذاکرؔ
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے ، نہ تن تیرا نہ من
اقبالؒ کے اس شعر پر تبصرہ مضمون کے آخر میں رکھتا ہوں، کیونکہ فی الحال پانی پانی کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں، پہلے اس پر بات ہوگی پھر محاورے کا مفہوم سمجھانے کی کوشش کروں گا۔
ان دِنوں یعنی جون (2023)کے اوائل میں بھی شہرِ سکردو سمیت بلتستان کے اکثر و بیشتر مواضعات میں پانی کی صورت حال نہایت ابتر ہے۔ آج چار جون کی صبح جب گھر سے بازار کی طرف نکلا تو آستانہ ایریا میں سڑک کے قریب ہی کچھ لوگوں کا مجمع دیکھا ، ذرا رُک گیا تو ایک اور دلچسپ چیز کا مشاہدہ ہوا جسے دیکھ کر گاڑی روکی اور فوٹو لینے نکل پڑا۔
آٹھ دس لوگ ایک پائپ کے گرد جمع تھے اور پلاسٹک کی بوتلوں اور کین میں پانی بھر رہے تھے۔ پیچھے دو تین لائینوں میں بوتلوں کی طویل قطار پینے کا پانی بھرنے کے لیے باری کے منتظر لائن میں لگائے ہوئے تھے۔ گِننے پر وہاں موجود بوتلوں کی تعداد 140 نکلی۔ نہیں معلوم اس سے قبل کتنے بوتل پانی بھرنے کی شرف حاصل کرکے اپنے گھروں کو لے جا چکے تھے۔ اگر فی گھرانہ دو بوتل شمار کریں تو اس وقت 70گھرانوں کے خالی بوتل اس ایک مقام پر پانی کے منتظر تھے۔
یہاں دوچیزیں انتہائی دلچسپ تھیں۔ اول یہ کہ پانی بھرنے کے تمام برتن پلاسٹک کے تھے۔ کل پانچ جون کو عالمی یومِ ماحولیات ہے اور اس کا مرکزی نکتہ پلاسٹک سے پاک ماحول ہے۔ اتفاق سے ایک بھی برتن سٹیل ، مٹکے یا لکڑی کا نظر نہیں آیا۔یہاں صاحبان ِ فہم و نظر کے لیے نشانیاں تو ہیں ہی، کہ ہم پلاسٹک کے اتنے اسیر ہو گئے ہیں ، انجام کار کیا ہوگا ؟ ایک لمحہ فکریہ ہے ۔
دوسری دلچسپ بات یہ تھی کہ اس طرح پانی کے لیے ترستے مناظر سکردو میں پہلی مرتبہ دیکھا گیا ، بلکہ دیکھا جا رہا ہے۔
عجیب مخمصہ ہے قلندر کے الفاظ میں بیان کروں تو ، ’’ میٹھے پانی کے دو عظیم ذخائر کے بیچ میں بلکتے لوگ‘‘ یا تو آفت ہے، یا آفتوں کو دعوت دینے والے۔ گلگت بلتستان قطبین کے بعد پانی کے ٹھوس ذخائر کا مرکز ہے۔ ہماری آبادیوں کے اوپر گلیشئر اور برف ہیں، نیچے دریا بہہ رہے ہیں، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ بیچ میں ہم پیاسے ہیں۔ اس وقت نہ برف پگھل کر نیچے آرہا ہے نہ دریاؤں کی پانی کو اوپر اٹھانے کا کوئی بندو بست ہے۔
آج سے ایک دھائی قبل جب بلتستان میں ایفاد کا ای ٹی آئی پروجیکٹ شروع ہورہا تھا تو اس وقت میں نے ایک پروپوزل لکھ کر اُس وقت کے کنسلٹیٹ کو دیا جس میں ضلع گانگچھے حلقہ تین کے قابل کاشت بنجر آبادیوں کی تفصیل اور طریقہ کار لکھا تھا ۔ بعد میں اُس وقت کانمائندہ اور وزیر مرحوم شفیق سے اس بات کا ذکر کیا تو انہوں نے اس پروپوزل کو اپنا کَورِنگ لیٹر لگا کر متعلقہ اداروں کو پہنچا دیا اور آپ نے دیکھا کہ ایفاد پروجیکٹ کا پہلا فیز بلتستان میں ضلع گانگچھے کےصرف حلقہ تین تک محدود رہا۔جہاں سے میرا تعلق ہے۔ وہاں پر میں نے اندازاً95ہزار کنال رقبے کا تخمینہ دیا تھا۔ اس پروپوزل کے مطابق اس وقت گانگچھے حلقہ تین میں غورسے پائندو تھنگ، تھگس ارادس ، نیو کاندے ، کھانے شلمہ، مچلو، سرمو بروق ، سینو دُم سُم میں منصوبے تقریباً مکمل ہو چکے ہیں۔ مرحوم شفیق نے اس سلسلے میں کئی جگہوں پر اس پروپوزل کا ذکر کیا تھا۔ انہیں دنوں ایک کالم بھی لکھا تھا جس میں پورے بلتستان کی ذیر کاشت لانے کے قابل رقبے اور ان تک پانی کی رسائی کے بارے میں تجاویز دی تھی۔
آج جب ہمارے عوام کو سبسڈی کی افیون نے غذائی اجناس کی پیداوار کے لحاظ سے تقریباً مفلوج کر دیا ہے، اور اب سر پرگندم کوٹہ کم کرنے، قیمت بڑھانے کی تلواریں لٹک رہی ہیں، تو قدرت نے العطش العطش کی صدائیں بھی بلند کروادیا ہے تاکہ کچھ سنبھل جائے ۔
اب بقول اقبال ؒ قلندر کی بات یاد آرہی ہے۔
ع تو جھکا جب غیر کے آگے، نہ تن تیرا نہ من
جب ہم اپنے غذائی وسائل کے لیے سبسڈی کے دست نگر ہو گئے تو ہم نے اپنے گاؤں کا گھر بار چھوڑ دیا، کھیت کھلیان ویران کر دیے۔ گندم کاشت کرتے وقت سبسڈی گندم کی قیمت کا موازنہ اپنے کھیت کی پیداوار سے کرنے لگے۔ کس کو کیا سمجھائیں ، ہمارے معاشرے میں اس وقت سبسڈی کے خلاف بولنا جرم نہیں تو قابل تعزیر ضرور سمجھا جائے گا۔ لیکن بطور معلم مجھے بولنا ہے، پائیدار ترقی کی خاطر ، خود کفالت کی خاطر ، خود انحصاری کی خاطر، غذائی تحفظ Food Securityکی خاطر،بھوک افلاس سے نجات کی خاطر،مستقبل کے خود دار و خود انحصار نسلوں کی خاطر۔ کچھ عرصہ محنت کرنا پڑے گا، پھر آپ خود کفیل ہو جائیں گے۔ اس خود کفالت کے لیے ہمارے پاس منصوبہ ہے۔
اس وقت بلتستان کی موجوہ آباد ذرعی اراضی کا تقریباً ڈیڑھ گنا یعنی 150%رقبہ سال بھر بہتے دریاؤں کے کنارے زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ سے دو ہزار فٹ کی بلندیوں پر واقع ہیں۔ میں نے اپنے مذکورہ کالم میں لکھا تھا کہ اگر حکومت ہمیں پانچ سال کی گندم سبسڈی ایڈوانس دے دیں تو اس رقم سے انشأ اللہ پانچ سال کے عرصے میں سالانہ سبسڈی کی رقم سے زائد ذرعی پیداوار، پیدا کرکے دکھا سکیں گے۔ ہم کوئی اضافی رقم نہیں مانگ رہے ہیں۔ جو رقم سبسڈی پر خرچ ہو رہا ہے، صرف اسے ایڈوانس مانگ رہے ہیں۔ اگر اتنی رقم کسی اور ذریعے سے حاصل ہو تو بھی یہ منصوبہ مکمل ہو سکے گا۔ المیے کی بات یہ ہے کہ تما م تھنگ اور داس پر عوامی جھگڑوں کو حل کرنے کی بجائے طول دیا گیا ہے تاکہ مستقل غذائی خود انحصاری میسر نہ ہو اور بڑھتی آبادی کے ساتھ غذائی قلت کا خوف ہمیشہ اپنے آپ کو حکومت اور حکومتی اداروں کی دستِ نگر رکھنے پر مجبور کرے۔ اب وقت آگیا ہے کہ حکومت خود خوفزدہ ہونے لگا ہے اور ہونا بھی چاہیے تاکہ غذائی خود انحصاری کی طرف ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں۔ اس وقت نہ تن ہمارا ہے، نہ من اپنا ہے۔
بابا غالب ؔ نے کہا تھا۔
مفت کی پیتے ہیں مئے اور کہتے ہیں کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
ہم بھی خیرات کھانے کے عادی ہو چکے ہیں، بلکہ ہمیں عادی بنا چکے ہیں اور اب کہتے ہیں ہماری فاقہ مستی رنگ لائے گی۔ ہماری پیاس رنگ لائے گی۔ رنگ تو لائے گی۔ آگے کے جملوں کوسینسر کرتاہوں ورنہ کہیں خود بھی رنگین نہ ہو جاؤں۔
آبی وسائل کی تنظیم اورغذائی خود کفالت کے میگا منصوبے پر کام کے لیے میں اپنی خدمات پیش کر سکتا ہوں، ویسے اللہ کے فضل سے اپنے مزاج کے مطابق گریڈ بیس کی اچھی بھلی ملازمت چل رہی ہے، جو میرے ذوق و شوق کے عین مطابق ہے۔ تاہم خطے کی مستقبل کے لیے اگر کچھ کرنے کا موقع ملے تو انشأ اللہ یہ اضافی کارِ خیر بھی ضرور کروں گا۔
میں نے عنوان لکھا تھا ’’پانی پانی پھر سیلاب ‘‘۔پانی کے کیلئے ترستے ’’پانی پانی ‘‘ ابھی ہوا ہے اور ہو رہا ہے ۔ لیکن ماحولیات کے ایک طالب علم کی حیثیت سے ایک پیش گوئی کردوں ۔ لگتا ہے اس سال جُون کے اواخر اور جولائی کا مہینہ ’’پانی پانی ‘‘ ہو جائے۔ جو برف ابھی تک پگھل نہ سکی وہ ایک ساتھ پگھل کر بے قابو ہو سکتا ہے۔ ابھی سے تیاریاں مکمل کر لیں اس اضافی پانی کا کیا کرنا ہے۔ یا اس کو کیسے مینیج Manage کرنا ہے۔ ندی نالوں کے کناروں سے بڑھ کر اندر تک اپنے در و دیوار کو وسعت دینے والے عقلمند حضرات قیمتی اشیا کہیں دور لے جائیں۔ ویسے حکومت کو ہمارا ایک مشورہ یہ بھی ہے کہ جو گھر اور آبادی ندی نالوں اور دریاؤں کے قدرتی راستے میں حائل ہیں ، ان کی تباہی پر کوئی معاوضہ نہ دی جائے تاکہ لوگ محتاط ہو جائیں۔
قلندر کی باتوں نے ہمیں تو پانی پانی کردیا ہے، اب حالات پانی پانی ہونے والا ہے۔ خدا خیر کرے۔ اور آپ احتیاط کریں۔