بانگ سحر ،ویب مانیٹرنگ ڈیسک
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق یہ پلا سرکاری منصوبہ جمعرات کی رات نیتن یاہو کی سیکیورٹی کابینہ میں پیش کیا گیا جس کے تحت اسرائیلی فوج اپنے اہداف کے حصول تک حماس کے خلاف جنگ جاری رکھے گی۔اس منصوبے کے تحت غزہ حماس اور دیگر شدت پسند گروہوں کا خاتمہ کیا جائے گا اور حماس کی جانب سے یرغمال بنائے گئے قیدیوں کو رہا بھی کروایا جائے گا۔مجوزہ منصوبے میں کہا گیا کہ غزہ کے انتظامی امور انتظامی تجربے کے حامل مقامی افراد چلائیں گے جن کا ان ملکوں یا تنظیموں سے رابطہ نہیں ہو گا جو دہشت گردی کو سپورٹ کرتے ہیں۔اس حوالے سے کہا گیا کہ جنگ ختم ہونے کے بعد بھی پورے غزہ میں کارروائی میں کارروائی کرنے کی کھلی اجازت ہو گی تاکہ وہ کسی بھی قسم کی دہشت گرد سرگرمی کو روک سکیں۔منصوبے میں کہا گیا کہ غزہ کی پٹی پر سرحد کے قریب بفرزون کے قیام کے لیے جاری منصوبے پر عملدرآمد جاری رکھے گا اور یہ سیکیورٹی زون اس وقت تک برقرار رہے گا جب اس کی ضرورت محسوس کی جائے گی۔مجوزہ منصوبے میں کہا گیا کہ اسرائیل کو اردن کی سرحد تک زمین، پانی اور فضا سمیت پورے خطے کا سیکیورٹی کنٹرول حاصل ہو گا تاکہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر شدت پسند عناصر کو مضبوط ہونے سے روکا جا سکے اور اسرائیل کو لاحق کسی بھی قسم کے خطرے کا تدارک ہو سکے۔اس حوالے سے کہا گیا کہ پورے غزہ کو اسلحے سے پاک کیا جائے گا اور تمام مذاہب، تعلیمی اور فلاحی اداروں سے انتہا پسندی کے خاتمے کو فروغ دیا جائے گا۔اس منصوبے کا ایک اہم جزو یہ ہے کہ اس میں اقوام متحدہ کی مہاجرین کے لیے قائم ایجنسی کو ختم کرنے تجویز پیش کی گئی ہے کیونکہ اسرائیل کا ماننا ہے کہ 7 اکتوبر کو کیے گئے حملے میں اس تنظیم کے بہت سے لوگ شامل تھے۔اسرائیل نے جن ملازمین پر الزام لگایا تھا، اقوام متحدہ نے انہیں برطرف کر کے اندرونی دور پر معاملے کی تحقیقات کا آغاز کردیا تھا۔دوسری جانب فلسطینی حکام نے اس منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ صرف ایک آزاد فلسطینی ریاست کا حصہ ہو گا جس کا داراللحکومت یروشلم ہو گا۔فلسطینی صدر محمود عباس کے ترجمان نبیل ابو ردینہ نے کہا کہ اس کے برعکس کوئی بھی منصوبہ ناکامی سے دوچار ہو گا اور اسرائیل غزہ کی جغرافیائی اور آبدیاتی حقائق کو تبدیل کرنے کی کوششوں میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکے گا۔ان کا کہنا تھا کہ اگر دنیا خطے میں تحفظ اور استحکام چاہتی ہے تو اسے فلسطینی خطے سے اسرائیلی قبضے کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک ایسی آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا ہو گا جس کا دارالحکومت یروشلم ہو۔واضح رہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نے یکطرفہ طور پر فلسطینی ریاست تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا اور اسرائیلی ایوان نمائندگان نے ان کے اس فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کر لی تھی۔