یاسین اور راجگی نظام شامل عوامل
تحریر:جاوید آحمد ساجد
گلگت بلتستان میں صدیوں سے شخصی حکومتیں چلتی رہی ہیں کبھی قدیم عظیم بروشال کی تیلی تی تھم اور آیش تھم کی حکمرانی تھی، تو کبھی زرتشت ایران کی حکومت رہی، کبھی چین کی، کبھی تبت کی ، کبھی کلاش راجہ سوملک کی کبھی چترالی رئیس اور کبھی ترکھنے ریئس اور سوملک کی،لیکن ریئس اور سوملک دونوں کے بارے میں دو مختلف آراء پائے جاتے ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے، یہ چترال سے تھے اور کچھ کا دعویٰ ہے کہ یہ ترکھانے گلگتی تھے۔ وللہ عالم بالصواب، پھر چترال میں جب محمد بیگ کی، اولاد بابا ایوب تیموری کی حکومت آئی تو پھر خوش وقتیہ اور کٹوریہ دور آیا اور پھر اس راجگی نظام کا آخری حکمران نگر سے تعلق رکھتا تھا، یہ نظام جیسا بھی تھا اور جہاں بھی تھا، ان حکمرانوں کے ساتھ عوام کے کچھ لوگ بھی برابر کے شریک تھے۔ یہ اکیلے بالکل بھی نہیں تھے۔ لیکن یاسین میں ہر آدمی اس راجگی نظام میں صرف راجوں، مہتران یا حکمرانو ں کو ہی ظالم اور اُس دور میں ہونے والی ظلم و زیادتی کی محرک تصور کرتے ہیں۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا اُس دور میں راجہ تن تنہا اکیلا ہی حکومت کے نظام کو چلاتا تھا یا کہ عوام میں سے بھی بہت سے عمائدین اس حکومت میں شریک تھے، میرے خیال میں ایسا نہیں تھا، حکومت کو چلانے میں حکمران کے ساتھ عوام میں سے بھی بہت سے لوگ شامل تھے چاہے وہ چھربو تھا،یا میر آخور یعنی شاہی اصطبل کا انچارج (میراخور)، وہ میر شکار (مہہ چکار) ہو یا یصاؤل، وہ استقال(اساقال) ہو یا نمبردار (ژنگوئین یعنی ژمویئن)، وہ سیرنگ ژنگوئین ہو یا ہلبی، چاہے وہ وزیر ہو یا اتالق (اتالیغ) اور بڑی گاڈیعنی باڑی گوارڈ body guards))بھی اس حکومت کے برابر کے حصہ دار تھے۔بلکہ وہ لوگ بھی جو حکمران یا راجہ کے دور و نزدیک کے رشتہ دار تھے، چاہے وہ کسی رضاعت کے لحاط سے رشتہ دار ہوں یا خونی رشتے دار، سب کے سب اس نظام میں شامل تھے، بلکہ راجہ یا حکمران کے احکامات سے بھی یہ لوگ دو چار قدم آگے ہو تے تھے۔ ان کے علاوہ وہ چابلوسی درباری بھی اس سے کئی ہاتھ آگے تھے اور ان حکمرانوں کو سچی کم، جھوٹی خبریں زیادہ دے کر غریب عوام اور معصوم لوگوں پر ظلم کرنے میں راجہ سے بھی دو ہاتھ آگے ہو تے تھے، اور دوسری طرف عوام کو حکمرانوں سے خوف ذادہ کرنا اور ان کے دل میں راجہ کا دھاک بٹھا کر لوگوں کو اور بھی مجبور کرتے تھے۔ اس دور میں ایشیاء، یورب اور امریکہ تک بھی اسی قسم کا نظام تھا۔بلکہ وہاں جمہوریت سے پہلے کسی کو کتاب لکھنے پر بھی پابندیاں تھیں جو کہ تقریباََ پندرویں صدی کے بعد ایک منظم جمہور ی نظام قائم کیا گیا اور اس کے بعد بھی کوئی بہت زیادہ سکھ غریبوں کو نصیب نہیں تھا تب تو مارٹن لوتھر جسیے لوگوں نے قربانیاں دے کر کچھ قوانین میں بہتری اگئی۔ لیکن کیا خلفاء راشدین کے بعد جو اسلامی مملکت تھے وہاں بھی خلافت کے بجائے ملوکیت شروع نہیں ہوئی تھی، زرہ ٹھیرئے دیکھتے ہیں کہ آج کی اس مدر پدر آزاد معاشرے میں یا جمہوری نظام میں کیا یہ ظلم ختم ہو گیا ہے یا اور بھی بڑھ گیا ہے۔آج تو لیوی، یوڈی سی۔ ایل ڈی سی، آفیس سپرنٹنڈنٹ، پٹواری، گرداور، نائب تحصیلدار، تحصیلدار، اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشنر، کمشنر، دوسری طرف پولیس کانسٹیبل، پولیس حوالدار، اے ایس آئی، سب انسپکٹر، انسپکٹر، ایس پی، ایس ایس پی، اے آئی جی، ڈی آئی جی، آئی جی پولیس، اور پھر چپڑاسی سے لے کر سکریٹری، اور وزیر وں کی فوج سے وزیر عظم تک کیا سارے فرشتے ہیں۔کیا اس دور میں کسی پر ظلم نہیں ہوتا ہے۔ کیا ایک غریب آدمی کی رسائی ان میں سے کسی ایک تک بھی آسانی سے ہو تا ہے، کیا یہ سارے لو گ بالکل بے قصور ہیں، کیا کوئی ادارہ ایسا ہے جہاں سفارش یا رشوت کے بغیر کسی کا م حل کیا جاتا ہے۔ اُس وقت بے جا ٹکس تھے لوگوں سے بے گار لیا جاتا تھا، کیا آج کی جمہوری حکومت عوام سے کچھ نہیں لیتی، حکومت کو چلانے کے لئے ملک کی دفاع کے لئے بہت سے ٹیکس عوام ادا کرتی ہے، کیا آج چونگی، آمدنی ٹیکس، دولت ٹیکس، سیلز ٹیکس، بر آمدی ٹیکس اور درآمدات پر ٹیکس پوری دنیا میں نہیں ہے۔ کیا صرف لائف بوئے صابن کی ایک چکی پر درکُت کا ایک غریب کسان بھی ان ڈائریکٹ ٹیکس نہیں دیتا۔ کیا اُس زمانے میں ملکی دفاع نہیں ہوتا تھا، کیا ملک یا علاقے کی سر حدات کی حفاظت نہیں کیا جاتا تھا، اسی طرح جو بہادر اور اچھے سپاہ سالار ہوتے تھے کیا ان کو مراعات نہیں دیئے جاتے تھے، اسی طرح اُس نظام کو چلانے کے لئے بھی اخراجات کی ضرورت تھی، اُس وقت کے مطابق ان ٹیکسوں سے حکومت کا نظام چلتا تھا۔ آج کی مثال ہمارے سامنے ہے جن ممالک میں ٹیکس کا نظام صحیح ہے عوام ایمانداری سے ٹیکس ادا کرتی ہے تو وہ ملک خوشحال ہے لیکن جن ممالک میں عوام ٹیکس نہیں دیتے حکمران کرپٹ ہیں وہ ملک بھیک مانگتے ہیں۔ اگر لوگ کسی ایک نظام کے تحت نہ ہوتے اور مد پدر آزاد ہوتے تو آج بھی افریقہ کی جنگلی لوگوں کی طرح ہوتے اور انسان انسانوں کو کھا لیتے، طاقت ور آج کے دور میں بھی طاقت ور ہے تو اگر معاشرہ ایک مدر پدر آزاد معاشرہ ہو تا تو پھر غریبوں کا اُس دور میں اُس سے بھی بُرا حال ہو تا جو اُس دور میں تھا۔ اُس ٹیکس نظام کی وجہ سے سر حدات محفوظ تھے۔ یہی وجہ تھی کہ داریل تانگیر اور سوات تک کے لوگ یاسین کے راجوں کو لگان دے کر ہندرپ اور دوسرے چراگاہوں میں اپنے مال مو یشی چراتے تھے وہ بھی صرف گرمیوں کی موسم کے لئے تھا۔ لیکن آج کی دور میں کوہستان والے ان زمینوں پر قبضہ کر نے کی کوشش میں لگے ہیں،جن پر وہ قلانگ اور ٹیکس دے کر صرف مال مویشی چراتے تھے۔ اور شندور پر خیبر پختون خواہ والے دعویٰ کر رہے ہیں۔بلکہ ایف سی متعین کر کے قبضہ کیا ہوا ہے۔میرے گوپس میں موجودگی میں وہا ں کے عمایدین کہتے تھے کہ لاسپور والے مال موشیوں کی چرائی کے لئے راجہ حسین ولی خان المعروف راجہ باباجان مقپون کو لگان دیتے تھے مگر آج ان سرحدات کی حفاظت کرنے ولا نہیں تو دوسرے قبضہ کر رہے ہیں۔اب آتے ہیں عدالتی نظام پر، آج کے اس دور میں بھی وہ عدالتی نظام ہم قائم نہیں کر سکے ہیں، جو اس دور میں تھا قتل کا فیصلہ ہفتہ دس دن میں ہوتا تھا۔ مجھے یاد ہے میر ی عمر میں یاسین میں پہلی مرتبہ جو قتل ہوا تھا ایک ہفتہ کے اندر اندر اس کا فیصلہ ہوا تھا اور فرقین نے بخوشی قبول کیا تھا لیکن چند سال پہلے کی بات ہے کہ ایک رسی پر جھگڑا ہوا اور وہ کیس تھانے تک گیا اور پھر دیوا نی کیس بن گیا، کیا آج کوئی کسی قتل کا فیصلہ ایک سال میں بھی کر سکتا ہے۔ معلوم نہیں کتنے کتنے جج ہیں اور کروڑوں کے وکیل ہیں لیکن عدالتی نظام دنیا میں سب سے آخری نمبر پر ہے، بے شک ہر زمانے میں ہر حکومت میں کچھ نہ کچھ خرابیاں ضرور ہو تی ہیں اور راجگی نظام کی غلطیوں کو دیکھنے کے لئے میر ا مضمون راجگی نظام پڑھ لیجئے جو کہ فیس بک پر بھی پوسٹ کیا گیا ہے اور بانگ سحر میں بھی شایع ہو چکا ہے اور پامیر ٹائم پر بھی ملے گا۔
حولا جات، ہندوکُش کے قبایل، جان بڈولف مترجم ظفر اقبال پال
سینہ بہ سینہ تاریخ گو رحمت امان لل ہویلتی (سلطان آباد)