”غزہ انسانی المیہ”
تحریر:۔فاطمہ سیدہ موسوی
انسانی بے حسی، خود غرضی،کم مائیگی کا اس سے بڑھ کراور کیا ثبوت ہوگا کہ 7 اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والی اس ہولناک جنگ میں 70 فیصد بچے اور خواتین بے دردی سے قتل ہوچکے ہیں۔کئی ہزار بچے لاپتہ ہیں۔وہ یا ملبے تلے ہمیشہ کے لیے دفن ہوچکے ہیں۔یا رات کی تاریکی میں خونخوار کتوں کی خوراک بن رہے ہیں۔
یہ تحریر زخمی دل،نمناک آنکھوں اور لرزتے ہاتھوں سے سپردِ قلم کر رہی ہوں کہ شاید ابابیل کے چونچ کے اس کنکر کی مانند ہو،جس نے مقدس کعبہ کو ڈھانے کی نیت سے آنے والے ابرھہ کے لشکر کو ڈھانے میں مدد دی۔یا اس چڑیا کے چونچ میں پانی کے قطرے کے جیسا جس نے آتش نمرود کو بجھانے میں حصہ لیا ہو۔
غزہ کے خواتین اور بچوں!!!
مجھے معاف کرنا کہ میں اس دور جدید کا وہ کوفی ہوں کہ تمھاری مسجدوں سے گونجتی’ ہل من ناصر ینصرنا” کی صدائیں چشمِ زدن میں ہوا کے لہروں سے زیادہ برق رفتاری سے میری سماعتوں سے ٹکرا رہی ہیں۔تم پر برسانے والے بم اور وحشی حملوں کے میں براہ راست ناظر ہوں۔
لمحوں میں تمھارے سکولز،اور گھروں کو ملبے کا ڈھیر بنتے میں مشاہدہ کر رہی ہوں۔تمھاری درسگاہوں کو پل بھر میں تمھارے لیے قبرستان بننے کا منظر روز دیکھ رہی ہوں اور بچوں کی تعلیم اور حقوق کے لیے بننے والی عالمی تنظیموں کے تبصرے سن رہی ہوں۔تمھاری بھوک،پیاس،بے سروسامانی،زخمی بدن اور پورے خاندان کی موت کے قصے بھی سن اور دیکھ رہی ہوں۔اب اپنی حساسیت کی تسکین کے لیے تمھاری المناک موت کی تصویریں دیکھ کر چشم پوشی کر لیتی ہوں۔یا انگلی سے وہ کلپ آگے کر لیتی ہوں کہ دل یہ مناظر برداشت نہیں کرسکتی۔مگرجب آنکھیں بند بھی کر لیتی ہوں تو تمھاری صدائیں کانوں میں گونجنے لگ جاتی ہیں۔تصور میں ترا زخمی،خون میں لت پت جسم مجسم ہوجاتا ہے۔
ملبے کے ڈھیر پہ لاشوں کے انبار میں اپنی مری ہوئی ماں کے سینے سے لپٹ کر پکارنے کی صدائیں سکون سے سونے نہیں دیتی۔تمھاری بھوک اور پیاس کے احساس سے سحر و افطار میں سادگی آگئی ہے۔ تمھارے پاس کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں اور تم میں سے زندہ بچنے والے غذائی اجناس کی قلت کی وجہ سے مر رہے ہو۔تم زخمی ہوں مگر تمھاری ماں کو اپنے آنچل کے ٹکڑے کر کے مرہم پٹی کرنے کا موقع ہی نہیں مل سکا۔ اچھا ہوا وہ تم سے پہلے مر گئی وگرنہ یہ بے سرو سامانی دیکھ دیکھ کر قسطوں میں مرجاتی۔تمھارے لیے کوئی دوا و مرہم نہیں ہے۔اور تم میں سے جو مر چکے ہیں وہ خونخوار جانوروں کی خوراک بن رہے ہو،اب بھلا ان خونخوار جانوروں کو کون ہٹائے اور بھگائے؟
جب انسان نما خونخوار درندے طاقت کے نشے میں اس قدر گر چکے ہیں کہ سور،کتے اور نجس جانوروں سے تشبیہ دینے سے بھی ان کی ذلالت و گمراھی بیان نہیں ہوپائے گی۔
میں اس تحریر میں مردوں کا ذکر اس لیے نہیں کر رہی ہوں کہ وہ جنگ پسند، فسادی،طاقت کے اظہار اور دنیا پر حکمرانی کا خواب دیکھنے کا شوقین
رہا ہے۔چاہے اس کی قیمت اس کی ماں، بہن،بیوی بچے،عوام و خواص ہی کیوں نہ ہوں؟یہ جانتے ہوئے بھی کہ جنگ کا انجام ہمیشہ سے ہی تباہی و بربادی خونین شاموں کے سوا کچھ بھی نہیں۔
اے غزہ کی عورتوں!!!مجھے احساس ہے تمھارا باپ مرے،بھائی مرے،شوہر مرے،بیٹا مرے یا سپاہی نقصان تو تمھارا ہی ہے۔تم نے ہی اسے جنم دیا ہے۔کوکھ میں پالا ہے۔پالا پوسا ہے۔زحمتیں اٹھائیں ہیں۔کوئی مرد کتنا ہی حساس کیوں نہ ہو تمھاری تخلیق کی اذیت، اپنے وجود میں عرصہ تک خون سے سینچ کر وجود بخشنے کی تکلیف، راتوں کو جاگ جاگ کر اسے لوریاں سنا کر سلانے کی قربانی،اور ان تمام تکلیفوں کو تمھاری شباب اور مسکراہٹ پر یکسر بھلا دینے کی کیفیت و سرور سے وہ کہاں آشنا ہے؟
غزہ کی عورتو!! نقصان ہر حال میں تمھارا ہی ہے۔تمھارا باپ،تمھارا بھائی،تمھارا شوہر، تمھارا بیٹا زندگی ہار رہا ہے۔دنیا بھر میں خواتین کی برابری،مساوات اور بچوں کے حقوق کے علمبردار محض تماشائی بنی ہوئی ہیں۔خاموش ہیں۔اور اگر بول بھی رہے ہیں تو یہ کافی نہیں ہے۔
اب تمھاری مکمل تباہی کے بعد تمھارے نام پر،تمھاری بحالی کے نام پر فنڈ جمع کریں گے۔تمھاری مظلومیت کا پرچار کریں گے۔تمھاری المناک تصویروں کے پوسٹر اٹھائیں گے۔اس تباہ شدہ ملبے کی مانند تمھارے ملبہ شدہ،منتشر اذھان کی بحالی پر بھی بڑھ چڑھ کر کام شروع کرینگے۔اور میرے غزہ کے زندہ بچ جانے والے بچوں!! تمھارے لیے نئے سکولز،تمھاری کفالت کے لیے چندہ اکھٹے کیے جایں گے۔اور خوب پیسہ بنائیں گے۔اور ہم مسلمان جو اب تک اس افسوس میں ہر سال حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے اور ان کے ساتھیوں کی کربلا میں المناک شہادت کا ماتم مناتے ہیں کہ کاش!
ہم کربلا میں ہوتے تو اے حسین آپ اور آپ کی آل کو کبھی تنہا نہ چھوڑتے!!بالکل ایسے کربلا میں ساتھ دیتے جیسے آج اہل غزہ کا ساتھ دے رہے ہیں۔کربلا تو صبحِ عاشورہ اذان فجر سے شروع ہوئی اور ظہر تک سب شہادت کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز ہوچکے تھے۔
مگر غزہ کا معرکہ جو نصفِ شب کی تاریکی میں شروع ہوا تا دم تحریر جاری و ساری ہے۔کربلائے فلسطین اب بھی مدد کے لیے پکار رہا ہے
مگر ہمارے پاس مدد نہ کرنے کے بہت سارے جواز اور بہانے ہیں۔کربلا والوں کی داستان تاریخ میں ضبط کرنے اور ہر پل ظالم نظام کے چہرے سے نقاب ہٹانے کے لیے زینب جیسی دلیر،شجاع خاتون زندہ بچ گئی تھی۔
مگر اے سر زمیں غزہ ایاہل غزہ!!!تمھاری دھرتی سے تو عورتیں ہی سب سے پہلے ختم ہورہی ہیں۔تمھاری المناک داستان لفظ بہ لفظ کون سنائے گا؟