دوبارہ گرفتاری سے قبل آخری ٹوئٹ ہے، تمام سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ انتخابات نہ ہوں‘وہ جانتی ہیں انتخابات ہوگئے، عمران خان اقتدار میں آجائیگا‘ ان لوگوں کو ملک کے اچھے یا برے سے کوئی سروکار نہیں ہے‘ یہ سب مجھے اقتدار میں آنے سے روکنا چاہتے ہیں‘چیئرمین پی ٹی آئی کی ٹویٹ
کارکنان،رہنماؤں کے گھروں پر چھاپے اور گرفتاریاں قابل مذمت ہیں،فوری رہا کیا جائے، بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں ان واقعات کی روک تھام کیلئے فوری اقدامات کریں‘
لاہور(اسٹاف رپورٹر) پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ٹوئٹ کیا ہے کہ ”یہ میری دوبارہ گرفتاری سے قبل آخری ٹوئٹ ہے“ پولیس نے میرے گھر کو گھیرے میں لے لیا ہے۔ٹوئٹ کے بعد ویڈیو لنک کے ذریعے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ انتخابات نہ ہوں کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ اگر انتخابات ہوگئے تو عمران خان اقتدار میں آجائے گا، ان لوگوں کو ملک کے اچھے یا برے سے کوئی سروکار نہیں ہے، یہ سب مجھے اقتدار میں آنے سے روکنا چاہتے ہیں۔ اس موقع پر عمران خان نے ایک گراف بھی دیکھایا جس میں ان کی مقبولیت 70 فیصد دیکھائی گئی تھی۔ خیال رہے کہ نگران وزیر اطلاعات پنجاب عامر میر نے کہا ہے کہ انٹیلی جنس اطلاعات ہیں کہ فوجی تنصیبات پر حملہ کرنیوالے 30 سے 40 دہشت گرد زمان پارک میں موجود ہیں، تحریک انصاف کو حوالگی کیلئے 24 گھنٹے کا الٹی میٹم دیتے ہیں۔ عامر میر کے الٹی میٹم کے بعد پولیس کی بھاری نفری زمان پارک کے باہر پہنچ گئی ہے جبکہ تحریک انصاف کے کارکنوں نے بھی زمان پارک پہنچنا شروع کردیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ پارٹی کارکنان اور رہنماؤں کے گھروں پر چھاپے اور غیر قانونی گرفتاریاں قابل مذمت ہیں۔خواتین، کارکنان اور رہنماؤں کو فوری رہا کیا جائے،اپنے کارکنوں اور رہنماؤں کی غیر قانونی گرفتاریوں اور اغوا کی شدید مذمت کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا سیل سے جاری بیان کے مطابق عمران خان نے کہا کہ وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی اور سیکرٹری جنرل اسد عمر ایک ہفتے سے زائد عرصے سے جیل میں بند ہیں، عدالتی احکامات کے باوجود صحافی عمران ریاض خان کو عدالت میں پیش نہیں کیا گیا، عمران ریاض پرتشدد کی مصدقہ اطلاعات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں تمام خواتین رہنماؤں،کارکنان اور ان کے خاندانوں کی خواتین کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتا ہوں، شہریار آفریدی کی اہلیہ کو جیل کیسے ہو سکتی ہے، یہ صرف لوگوں میں دہشت پھیلانے کے لیے ہے تاکہ وہ اپنے آئینی حقوق کے لیے کھڑے نہ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ سابق وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری اور ان کی بیٹی کے ساتھ مرد پولیس افسران کی جانب سے جسمانی تشدد کا سن کر بہت پریشان ہوں، اسلام آباد ہائی کورٹ سے ڈاکٹر شیریں مزاری اور سینیٹر فلک چترالی کی ضمانت منظور ہونے کے بعد انہیں اڈیالہ جیل کے اندر سے اغوا ء کر کے تھانہ سیکرٹریٹ لے جایا گیا جہاں ڈاکٹر مزاری کی چیخیں سنائی دیں، انہوں نے کہا کہ ہماری خواتین ورکرز کے ساتھ ہونے والے وحشیانہ سلوک کے سامنے آنے والے ویڈیو ثبوت قابل مذمت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری بہت سی خواتین اراکین اسمبلی، سپورٹرز اور کارکنان کو پاکستان بھر کی جیلوں میں غیر انسانی حالات میں رکھا گیا ہے جو پولیس کی زیادتیوں کا شکار ہیں، اس فاشسٹ حکومت کی طرف سے خواتین کے ساتھ روا رکھے جانے والاسلوک نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں بلکہ ہماری ثقافت اور اسلامی تعلیمات کے سخت خلاف ہیں۔ا نہوں نے کہا کہ تمام خواتین کو فوری رہا کیا جائے، خواتین کی مسلسل قید ناقابل برداشت ہے، میں بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں سے بھی مطالبہ کرتا ہوں ان واقعات کی روک تھام کے لئے فوری اقدامات کریں۔