کراچی یاترہ
تحریر: جاوید احمد
جوبلی لائف انشورنس کی 25 سالہ جشن منانے کے لئے کمپنی نے ان تمام احباب کو بلایا تھا جن لوگوں نے جوبلی لائف انشورنس کے ساتھ پندرہ سال سے زیادہ عرصہ گذارا تھا۔ خوش قسمتی سے مجھے بھی تقریباََ 18 سال ہو رہے ہیں تو مجھے اور میری بیگم کو بھی بلایا گیاتھا۔15 جنوری کو صبح نماز جماعت سے ادا کی اور خریت سے واپسی کی دعانگی، گھر آیا تو میری بیوی بھی تیاری میں مصروف تھی ناشتہ کے بعد عزیزم ذوھیب حسن جاوید نے ایک اوبر کی کار کو بلوایا بچوں نے ہمیں رخصت کیا اور اللہ کے حضور دست بہ دعا ہوے کہ اللہ پاک خریت سے آپ کا سفر گذارے ہم نے آمین کہا اور اوبر کی کار میں روانہ ہوے خیر سے ابتدائی طور پر ساڑھے نو سو روپے کا بل دکھایا گیا تھا لیکن جب ہوائی اڈے پر اترے تو ڈرائیور نے اٹھارہ سو کا بل دکھایا۔مجبوری تھی ادا کیا۔پھر ایک ریڑھے پر بیگ رکھا اورادھر ادھر دیکھتے ہوے جارہا تھا کہ ایک بندے نے دیکھا اور میری رہنمائی بالائی منزل کی چک ان کونٹر کی طرف کی اور ہم ایک لفٹ کی مدد سے اوپر گئے اور ایر سیال کے کونٹر پرپہنچ گئے ہم دونوں ماشا اللہ مکمل گلگت بلتستانی لگ رہے تھے کیوں کہ دونون نے اپنی روائتی ٹوپیاں بھی پہنا تھا۔ ہماری میزبان نے ہمیں ای ون اورایف ون کی نشست مختص کی،ان میں سے ایک کھڑکی کے ساتھ کی نشست تھی جس پر ہم نے اپنی دیسی میم یعنی بیگم لیکن بیگم بھی تو بڑے لوگوں کی ہوتی ہی یعنی بیوی کو بٹھایا، چک ان سے فارغ ہو کر ہم جب گیٹ نمبر سی تین کی انتظار گاہ میں پہنچے تو چند ایک مسافر تھے پھر آہستہ آہستہ جوبلی کے مہمان بھی دوسرے مسافروں کے ساتھ آتے گئے اور پھر دس بجے اعلان ہوا اور ہم اپنے سفری تھیلے اُٹھا کر آہستہ آہستہ جہاز کی جانب ایک مصنوعی سرنگ یا راہداری کے ذریعے روانہ ہوے۔ ہماری نشست کاکپٹ کے قریب تھی سامان کیبن میں رکھا پھر اپنی بیگم کو کھڑکی کی طرف بٹھایا تاکہ باہر کا نظارا کر سکے۔ پاکستانیوں کی بری عادتیں کبھی ختم نہیں ہوتیں،وہ جہاز میں داخل ہو کر اپنا سیٹ دیکھنے کی بجائے کسی بھی کیبن میں سامان ٹھونسنے کی کوشش کرتے ہیں، اس سے ایک تو وقت کا ضیاع اور دوسرا اپنی نشست کے اوپر کسی اور کا سامان رکھا دیکھ کر دوسرے مسافر کو بھی تکلیف ہوتی ہے اور مسافروں کے راستے میں کھڑے ہونے سے بھیڑ ہوتا ہے۔ بہر حال عملہ کی مٹکتی لچکتی میز بانوں کی کوشش سے جب سب مسافر اپنی اپنی نشست سنبھالی تو جہاز کی سفر کے دوران کی حفاظتی تدابیر بتائے گئے جو کہ گونگی زبان میں اشارے سے علان کے ساتھ ساتھ سمجھائے گئے اور پھر جہاز نے ٹیکسی کیا اور ہوا میں معلق ہو گیا یقناََ سفر خوشگوار تھا۔ خدمات بھی اچھی تھیں، پرواز کی بلندی چھ ہزار دو سو فٹ بتایا گیا تھا۔ جب پرواز معمول پر آگیا تو ہوائی میز بانوں نے کاک پٹ کے سامنے پردہ کھینچا اور تھوڑی دیر بعد گرم گرم کھانا ہمارے سامنے رکھدیا گیا کھانا گرم گرم اور اچھا تھا ہم نے کھایا اور لطف اُٹھایا، خالی برتن اُٹھا ئے گئے اور باہر کا نظارہ کیا ایک پہاڑی کے اوپر سے پرواز کر رہے تھے لیکن یہ معلوم نہ ہو سکا کہ کون سی جگہ ہے تھوڑی دیر بعد ہوائی میز بان نے علان کیا کہ بہت جلد ہم کرا چی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اترنے والے ہیں اور یہ کہ نشست کی حفاظتی بند کو باندھے رکھیں اور جب تک نہ کہا جائے اپنی نشستوں کو نہ چھوڑیں،کراچی کے اوپر سے پرواز کرتے ہوے جہاز کبھی اِدھر کبھی اُدھر ٹیڑھا ہوتا تھا جس سے کراچی شہر کے عمارتیں کبھی سیدھی اور کبھی ٹیڑی ہو کر پہاڑیوں کی مانند دکھائی دیتی تھیں بہر حال یہ منظر میری بیگم کے لئے انتہائی دلچسپی پیدا کر رہی تھیں اور وہ اپنی زندگی کی پہلی مرتبہ ہوئی سفر سے خووب لطف اندوز ہو رہی تھی، میں نے بھی ان کی دلچسپی کو بھانپتے ہوے ان سے کہا خوب دیکھو کراچی شہر کو یہ نظارہ کراچی والوں کو کہا نصیب ہے۔ یہ تو جوبلی لائف انشورنس کی مہربانی ہے کہ آپ کو یہ موقع فراہم کیا ہے۔د وپہربارہ بجے کراچی ہوائی اڈے پر اُتر گئے جہازسے نکل کر سامان کی ترسیل کے کونٹر پر گئے سب سے آخر میں ہمارا اٹیچی کیس نے تشریف لایا جو نہی باہر نکلے تو موؤان پک ہوٹل جو کہ پرانا شریٹن ہوٹل تھا کے عملے نے جلدی جلدی میں ویگن میں بٹھایا اور ہوٹل کی طرف روانہ ہوے۔ہوائی اڈے سے نکلتے ہی کچھ فاصلے تک پیپلز پارٹی نظر آئی یعنی گندگی کے ڈھیر ہی ڈھیر تھے لیکن پھر کچھ کم ہوتا گیا اور جب ہم ہوٹل موان پک کے احاطے میں پہنچ گئے تو صفائی کا معیار بہتر نظر آیا۔ میں نے سوچا تھا کہ جیسا کہ جوبلی لائف کی یہ رَیت تھی کہ جب مہمان کسی مقام پر پہنچتے ہیں تو آگے جوبلی کا نمائندہ یعنی اُس فنگشن کے منتظمین میں سے کوئی نمائندہ مہمانوں کو خوش آمدید کہنے اور ان کی سہولت کے لئے موجود ہوتا تھا لیکن یہاں ایسا کوئی نمائندہ نہیں تھا ایک دوسرے سے پوچھ پاچھ کر ہم اسقبالیہ تک پہنچ گئے تو کمروں کہ بکنگ بھی ہم نے ہی کروایا البتہ یہ جوبلی لائف کی طرف سے مہربانی کر کے مہمانوں کا لسٹ ہوٹل والوں کو دیا گیا تھا تو انھوں نے لسٹ میں نام ڈھونڈ کر کمرہ الاٹ کیا اور ہمیں بھی ایک کمرہ چھت کے نزدیک مل گہا یعنی 738 نمبر کمرہ تھا جو ظاہر ہے ساتویں فلور پر تھا ہم نے سوچا چلوکراچی شہر کو اتنی اونچائی سے دیکھے نگے لیکن یہ حسرت ہی رہی،کیوں کے کمرے کا ایک ہی کھڑکی باہر کی طرف تھی جس کے سامنے کوئی بیس منزلہ عمارت کھڑی تھی۔جب لفٹ میں جا کر 7 کا بٹن دبایا جو کام نہیں کر رہا تھا تو ایک مہربان نے کہا کہ کیا آپ کے پاس کارڈ ہے تو میں نے کارڈ نکال کر دکھایا تو اس نے کارڈ ایک جگہ رکھا اور سات کا بٹن دبایا تو ساتویں منزل کا نمبر روشن ہو گیاساتویں منزل کے ڈیلکس فلور پر پہنچ گئے سامنے ہی گیلری میں ہمارا کمرا تھا ایک ہاؤس کیپنگ والے نے مدد کی کمرے میں پہنچ گئے، بہر حال کمرے اچھے تھے ظاہر ہے سابقہ شریٹن ہوٹل جو ٹھیرا۔ کچھ دیر ٓرام کیا پھربھٹی صاحب کو فون کیا کہ واپسی کی ٹکٹ کا کیا بنا تو اس نے بھی کہا کہ فی لحال کچھ نہیں پتہ۔فی الحال آکر کھانا کھالو تو بعد میں پتہ کرتے ہیں اور ہم جب ہمارے لئے مخصوص حال میں پہنچے تو علاالدین صاحب ایک میز پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے نے ایک نہایت ہی برد بار، خوش شکل اور ہنس مکھ ساجد سے ملاقات کرایا علیک سلیک کے بعد معلوم پڑا کہ خلتی گوپس ضلع غذر کے رہنے والے ہیں۔ جب میں نے ان کے ساتھ کھوار میں بات کی اور اپنا تعارف یاسین کے باشندے ہونے سے کرایا تو ان کی خوشی دیدنی تھی اور اُس نے ہم کو ہاتھو ں ہاتھ لیا اور لے جا کر ایک دو نشستوں والی میز پر بٹھایا اور خودہی طرح طرح کے کھانے لاتا رہا اور خاص کر میری بیگم کو وہ بار بار بیچی یعنی پھوپی کہہ کہہ کر یہ کھانے وہ کھانے کا کہہ رہا تھا اور بہت خوشی محسوس کرہا تھا۔ جب ہم نے کھانے سے ہاتھ کھینچا تو اس نے کہا کہ آپ یہی بیٹھے رہیں میں نمکین اچھی سی چائے بنوا کر لاتا ہوں تھوڑی دیر بعد بے خیالی میں کسی ساتھی کے ساتھ ہم نکل آئے اور جب کمرے میں پہنچے تو یاد آیا کہ ساجد تو چائے بنوانے گیا تھا۔ہم ان کا ذکر کر ہی رہے تھے کہ اس نے ہمارے کمرے کی گھنٹی بجائی اور چہرے پر ایک خوش گوار مسکراہٹ سجائے چائے کا ٹرے اٹھائے حاضر ہوا،ہم نے اُن کا شکریہ ادا کیا تو وہ نچھاور ہو رہے تھے اور اپنا نمبر بھیدے کر چلا گیا، شام کو اپنی ڈیوٹی ختم کر کے جاتے ہوے پھر سے فون کر کے حال احوال اور خدمت کا پوچھا۔کچھ دیر آرام کے بعد میں نے ا وسامہ اور عباد انیس سے رابطہ کیا یہ دونوں جوبلی کی جانب سے ٹکٹوں یعنی ہوائی جہاز کے ٹکٹ کا بندوبست کر رہے تھے اوسامہ ٹریولنگ ایجنٹ ہے ظاہر ہے اُس نے اپنی کمیشن کا سوچنا ہے لیکن افسوس عباد پر ہے کہ وہ جوبلی کا نمائندہ ہو کر جوبلی کے لوگوں کا فائدہ سو چنے کی بجائے ایجنٹ کے فائدے سوچ رہاہے۔لیکن میں اپنا سوچ رہا تھاکہ اب بھی وقت ہے ٹکٹ میں واپسی کی تاریخ میں رد وبدل کیا جائے تو شاید میرے کچھ پیسے بچ جائیں، لیکن انھوں نے مکمل طور پر ارداہ کیا تھا کہ کچھ کمانا ہے اور انھوں نے نہ تعاون کرنی تھی نہ کیا بہانے بناتے رہے اور رات کے آخری پہر اوسامہ نے فی ٹکٹ 6000 کی اضافی رقم لے کر واپسی کی پرواز کو 31 جنوری کے دن ایک بجے کی پرواز کے لئے مختص کیا تو مجبواََ دو ٹکٹوں میں 12000 اضافی ادا کر کے ٹکٹ حاصل کیا اور سو گئے۔
شام تک جوبلی انتظامیہ کی جانب سے کوئی معلومات نہ ملی تو میں اپنی بیگم کو بھی لے کر اُس حال کی جانب روانہ ہوا جہاں فنگشن منعقد ہو نا تھا جب لفٹ کا دروازہ کھل گیا تو دیکھا کہ عاطف دلدار صاحب جو کہ نارتھ ریجن اور سنٹر ریجن کا ھڈہے بھی تھے ان سے علیک سلیک کیا پھر ان کی قیادت میں اُس حال میں پہنچ گئے جہاں فنگشن تھا سٹیج کے نزدیک ایک میز کے گرد لگی کرسیوں پر بیٹھے انتظار کر نے لگے حال گول میزوں کے گرد لگے سرخ کرسیوں سے کھچا کچھ بھرا ہوا تھا، سپاٹ لائٹس کی روشنی سے آنکھیں چندیا رہی تھیں اور لوگ آہستہ آہستہ آنے لگے اور حال بھر گیا ہم ایگزیٹیو افیسر محمد جاوید صاحب اور ان کی اہلیہ کا انتظار کر رہے تھے آخر کار وہ آگئے اور ہم نے نشست بدل کر دوسری جگہ اُن کے پاس چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد تلاوت کلام پاک سے اس محفل کا آغاز ہوا۔ اس دوران مختلف ڈیپارٹمنٹ کے ھڈ کی جانب سے مختلف پیغامات دئے گئے جو کہ ویڈیو کی صورت میں پیش کئے گئے ( ادھر فنگشن کے بارے میں لکھنا ہے) پھر ساتھ ساتھ مختلف محکموں کے لوگوں کو ایوارڈ دینا شروع کیا گیا، درمیان میں مشہور آرٹست انور مقصود کو بلایا گیا اس نے ایک لمبی چوڑی اور ادبی مقالہ سا سنایا جس میں جوبلیانشورنس، جون ایلیاء، معین اختر،کے بارے میں باتیں بتائیں اور عمران حکومت پر بھی کچھ فقرے کسے اور اس کے بعد جوبلی کا منیجنگ ڈائریکٹر جاوید احمد نے پی ایس ایل کے پارٹنر شپ کے ایڈورٹائیز کرایا اور تقسیم ایوارڈ کا سلسلہ بھی چلتا رہا ۔ جاوید احمد صاحب نے تقریر کیا اور جب ایوارڈ کی تقسیم مکمل ہوئی تو پھر ان لوگوں کو جن کی ملازمت کا دورانیہ بائیس سال سے زیادہ تھا اُن کو دوبارہ بلایا گیا اور ایوارڈ اور سونے کے سکے دئے گئے اور اس طرح یہ پُر رونق تقریب اختتام کو پہنچا۔لیکن لیکن ایوارڈ کی تقسیم کا انتظام بہت بے ترتیب تھا بہت سے لوگوں کو اُن کے نام کے ایوارڈ نہیں ملے کیوں کے ہر ایورڈ پر نام لکھویا گیا تھا لیکن ایوارڈ دینے والوں میں افراتفری سا تھا جو کہ کسی کو تقریب کے بعد اور بہت سوں کوبعد میں دفتر سے اپنا ایوارڈ حاصل کر نا پڑا، جن میں سے ایک میں بھی تھا۔ کوئی گروپ فوٹو کا بھی انٹطام نہیں کیا گیا تھا۔ کھانا اچھا تھا لیکن بہت کوشش کے بعد کچھ کم مرچوں والا کھانا تلاش کیا، مفت کا تھا اس لئے خووب سیر ہو کر کھایا لیکن اس نے بدلہ لیا۔ کیوں کی میں ہوٹل کی مرچوں والی سالن وغیرہ تو بہت کم استعمال کیا کرتا ہوں جہاز میں بھی کھانا کھایا تھا اور دوپہر کو بھی ہوٹل کا کھانا کھایا اور رات کو بھی جب کھایا توپھر اس کھانے نے رات بھر اپنا بدلہ لیا البتہ میری بیگم گھوڑے بیچ کر سو گئی اور میں نے بھی اُن کو تکلیف نہیں دی ہر تیس منٹ بعد اُٹھ کر پانی پیتا رہا یہاں تک کہ صبح تک تین بوتل پانی پی چکا تھا۔صبح کی آذان کے بعد اللہ کو یاد کیا اور پھر آٹھ بجے تک دو گھنٹے سو سکا اور پھرآٹھ بجے اُٹھے اور ناشتے کی میز پر گئے تو ساجد جو کہ ایک نوجوان خلتی گوپس کا رہنے والا جس سے کل ہی ملاقات ہو چکی تھی نے دیکھتے ہی ہمیں ایک دو سیٹوں والی میز پر لے گیا اور خود ہی طر ح طرح کے کھانے جو ناشتہ کے لئے مختص تھیں ہمارے میز پر سجا دیا ہم میاں بیوی دونوں انتہائی کم خوردن واقع ہوے ہیں کھایا جو کچھ کھا سکتے تھے اور پھر مفت کا مال قاضی کو حلال والی بات بھی سامنے تھی۔اس دوران کچھ کولمبو کے دورے کے ساتھی جن میں انعام اللہ پشاوری بھی اپنی بیگم کے ساتھ تھا کچھ کولمبو کی ناشتے کی یادیں تازہ کیا اور اپنے اپنے بیگمات کو سنا کر محظوظ کرانے کی کوشش کی۔ بہر حال ناشتہ سے فارغ ہو کر ہم کمرے میں آئے لباس تبدیل پہلے ہی کیا تھا کچھ سامان جو بکھرے پڑے تھے کو سمیٹ لیا اور پھر نکل کر لابی میں گئے اور اسقبالیہ پر جاکر چک اوٹ کرایا اور کچھ فوٹو گرافی کیا اتنے میں سرور علی جو کہ میرابھتیجا اور داماد بھی ہے، پہنچ گیا کراچی میں ٹیکسی کار نہیں البتہ رکشوں کی بھر مار ہے باہر نکلے ایک رکشہ میں سامان سیمت بیٹھ کر علی بھائی اڈیٹو ریم کے نزدیک سلیمہ گارڈن پلازہ کے چوتھے منزل میں سرورعلی اور نازیہ کے گھر پہنچ گئے توبیٹی اور نواسہ خوشی کے مارے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ اس جگہ کے آس پاس کئی رشتہ دار ہیں جنھوں نے اس قیام کے دوران خوب خدمت کیا اورہم بہت لطف اندوز ہوئے، ان رشتہ داروں کے علاوہ جونلی لائف انشورنس کء کلائنٹ سروس ڈیپارٹمنت کے محمد جاوید صاحب اور اُن کے اہل خانہ نے بھی ہمیں شرف مہمانی بخشا اور بہت زیادہ خدمت کیا جس کا ہم مقروض ہیں اور جتنا شکریہ ادا کریں کم ہے۔ 16 جنوری کو دن بھر گھر پر رہے بہت سے رشتہ دار ملنے آئے اور خلوص پیش کیا، رات کو بخار ہوا جس کی وجہ سے سترہ جنوری کو بھی گھر پر ہی آرام کیا دفتر بھی نہ جاسکا رات کو ڈاکٹر عظیم نے ضیافت پر بلایا اور رات گئے واپس آگئے طبیعت ٹھیک نہیں تھی جس کی وجہ سے کچھ دوائی لے کرآرام کیا۔ اٹھارہ جنوری کو یاسین خاص کے ایک رشتہ دار محمد اشرف کی بیٹی اور اس کے گھر والے ظفر خان نازبر (جو کہ صوبیدار وزیر کے پھوپھی زاد بھائی ہیں) کی دعوت پر اُن کے گھر گئے۔ طبیعت آج بھی ناساز تھی۔ سرور نے اُنیس تاریخ کو آغاخان ہسپتال گارڈن میں ڈاکٹر سے وقت لے کر دکھایا تو ڈاکٹر نے بتایا کہ گھبرانے کی بات نہیں الرجی ہوا ہے دوائی دیا اور خون کا ٹسٹ لیا جو کہ اللہ کے فضل سے ٹھیک آیا۔کراچی میں تقریباََ پندرہ دن رہے لیکن کہیں گھومنے پھرنے سے پرہیز کیا گیا سوائے ایک دو رشتہ داروں کے زیادہ تر کے پاس نہیں گئے۔ البتہ ایک دن جوبلی کے دفتر گیا لیکن وہاں بھی سوائے ایوارڈ کے جو کہ تقسیم ایوارڈ کے روز مجھے اور بہت سے دوسرے لوگوں کو بھی نظم و نسق کی کمی کی وجہ سے نہیں ملا تھا آج لے کر آگیا اور کچھ لوگوں سے ملاقات بھی ہوئی۔ البتہ ایک دن چند گھنٹوں کے لئے کلفٹن ساحل کی سیر کے لئے گئے لیکن محظوظ ہونے کے بجائے دل اُچاڑ ہو گیا کیوں کہ پاکستانی جہاں کہیں بھی جاتے ہیں چاہے وہ ساحل سمندر ہو، یا پہاڑوں کے خوبصورت نظارے، اور سبزا زار،، قدرتی چشمے ہوں یا فلک بوس پہاڑوں کا دامن، کلفٹن کا ساحل ہو یا ہاکس بے۔مری ہو یا ننگا پربت کا دامن میں فیرو نیڈو، اسلام آؓباد کے سیر گاہ ہوں یا گلگت بلتستان کے دل فریب نظارے،پاکستانی سیاح ان مقامات سے لطف اندوز کم ہوتے ہیں لیکن گندگی زیادہ پھیلاتے ہیں۔ آج 29 جنوری 2022 ء کو ہم نے کلفٹن کی ساحل کی سیر کی، سڑک پر اترتے ہی سڑک یا خوشکی اور ساحل کے درمیان دور دور تک خاردار تار کی باڑ لگا ہوا نظر آیا اور ایک جگہ سے اندر جانے کا راستہ تھا شاید یہ انتظامیہ کی طرف سے حفظ ما تقدم کے طور پر لگایا گیا ہو کہ بے ھنگم، بے شعور، صفائی سے عاری، اورغیر مہذب لوگ ہر جگہ سے راستہ نہ بنائے بلکہ منظم قوم کی طرح اس ساحل کی سیر کے لئے اندر جایئں، انتظامیہ اس خاردار تار کی باڑ کے ساتھ ساتھ اندر کی طرف کیاریاں بنا کر پھول اُگانے کی بھی کوشش کرتے نظر آئے، لیکن جونہی ساحل کا ریتلا علاقہ جو کہ سمندر کی کثافت سے ویسے اٹا پٹا ہو تا ہے شروع ہوتا ہے وہاں سے سمندر کے پانی تک حد نظر جدھر دیکھو سیلانیوں کے پھینکے ہوے گند ہی گند نظر آئے گا،پلاسٹک شاپر، بسکٹ کے خالی ڈبے، ٹافی اور چیونگ گم کے کاغذ، پانی اور جوس کے خالی بوتل اور خالی ڈبے، مالٹا، کیلا، امرود کے چھلکے، اور سگرٹ کی خالی ڈبی اور ٹکڑے،یہاں تک کہ روٹی اور ڈبل روٹی کے ٹکڑے ایسے بکھرے پڑے ہیں کہ گمان ہوتا ہے کہ ہم کسی ساحل کے بجائے کسی کوڑے کرکٹ کے دھیر پر چل رہے ہیں۔ سمندر کے پانی سے بد بو تو ویسے بھی آتی ہے لیکن ان غیر شائستہ لوگوں کی پھیلائی ہوئی گندگی سے پھیلنے والی بدبو نے فضا کو ایسا آلودہ کیا ہے کہ انسان مشکل سے کوئی آدھ گھنٹہ گذار سکتا ہے، اس گندگی کے علاوہ اُونت اور گھوڑوں کا گوبر بھی جگہ جگہ بکھرے پڑے ہیں، اس پر طرہ یہ کہ سڑک سے سمندر تک پانچ منٹ پیدل چلنے کا راستہ بھی طے کرنے کے لئے چنچیاں دندناتے پھرتی ہیں اور لوگوں کی اس بے ھنگم شور کے ساتھ اس چنگھاٹتی چنچیوں کی شور نے سیلانیو ں کی جو اس غرض سے آتے ہیں کہ شہر کی شور سے نجات پاسکیں، مسرت، اور سکون کی بجائے الٹا سردرد لے کر بوجھل قدموں سے واپسی کی راہ تکتے ہیں، اور مزے کی بات یہ بھی ہے کہ کراچی شہر سے اس سیر گاہ تک آنے کے لئے کوئی پبلک ٹرانسپورٹ نظر نہیں آیا، لوگ رکشہ یا پراوئیویٹ کاروں کو بک کرکے آتے ہیں اور واپسی پر کوئی رکشہ حاصل کر ے کے لئے گھنٹہ گھنٹہ انتظار کرنی پڑتی ہے، ہم تو گوروں کو کبھی کبھی ساحلوں کے کنارے مزے لیتے ویڈیو کلپ یا فیس بک پر دیکھ کر گمان کرتے تھے کہ شاید پاکستان کے ساحل سمندر بھی ایسے ہوں گے لیکن کلفٹن کی ساحل سے واپسی پر یہ ارادہ کر کے آگئے کہ آئندہ شاید کہیں موقع بھی ملا تو اس جگہ نہ ہی آئیں تو بہتر ہو گا۔ نہ صرف کلفٹن کا ساحل سمندر میں گندگی دیکھا بلکہ اپنے عظیم قائد کے مزار کے احاطے میں بھی یہی حال تھا، کسی سیلانی کو نہیں دیکھا کہ اس نے اپنے فالتوں اشیا ء، پھلوں کے چھلکے،خالی بوتل، یا ڈبے کسی پلاسٹک کی شاپر میں ڈال کر کسی ڈسٹ بن میں ڈالا ہو، حیوانوں کی طرح جدھر بیٹھا اور کھایا پیا ادھر ہی گندگی پھینک کر چل پڑے۔ معلوم نہیں کوئی گورا یا غیر ملکی اس قوم کے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے، جب کہ مجھے خود سے شرم آتی تھی کہ ہم گلگت بلتستان والے کیوں زبردستی سے پاکستانی بننے پر تلے ہو ے ہیں۔مجھے ان کی یہ حرکات غیر انسانی، غیر فطری اور ایک غیر مہذب معاشرے کی نظر ائیں۔ کیماڑی تک جانے کا موقع ملا وہاں بھی یہی حال ہے شہر کی ترقیاتی کام کے بارے میں میں صرف یہ عرض کرونگا کہ سوائے کلفٹن کے باقی تمام سڑکو ں کو دیکھ کر ضلع غذر گلگت بلتستان کے پتھر کے زمانے کی سڑکوں کی یاد آگئی جگہ جگہ کھڈے، پڑگئے ہیں، گرد و غبار آسمان سے باتیں کرتی ہیں، ٹریفک کا کوئی قانون دیکھنے کو نہیں ملا جس کو جدھر سے راہ ملتی ہے ادھر سے ہی بھیچ میں گھستا نظر آیا، بے ھنگم ٹریفک،بے ھنگم شور، کسی کو صبر نام کی چیز نہیں، ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے کی کوشش، نہ ٹریفک سگنل کا انتظار نہ ہی یہ دیکھتے ہیں کہ دایئں بائیں سے بھی گاڑیا ن گذر رہی ہیں یا کوئی پولیس اشارہ دے رہا ہے، کئی کئی میل تک اُلٹے ہاتھ یعنی ٹریفک کے مخالف سمت میں گاڑیا ں چلتی دیکھا، یو ٹرن کی بہت کم استعمال دیکھنے میں آیا، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اس بے ھنگم ٹریفک کو دیکھ کر مجھے اوجھری کیمپ مری روڈ راولپنڈی کے سامنے ولا ٹریفک یاد آیاکہ اس جگہ بھی ہمارے محافظ ہمارے جانثار، آئی ایس آئی کے موٹر سائکل والے خاص کر جو آئی جی پی روڈ سے فیض اباد آتے ہیں وہ بھی سروے آف پاکستان سے اسلام آباد جانے والی ٹریفک کے مخالف سمت تقریباََ ایک کلو میٹر کا فاصلہ ایک انتہائی غیر قانونی طور پر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی نہیں بلکہ پامال کرتے ہوے اور اسلام اباد جانے والوں کی راہ میں رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں اور ان کا دیکھا دیکھی رکشوں والے بھی یہی حربہ استعمال کرتے ہیں جس سے اس احاطے میں بہت زیادہ مشکل ہوتا ہے، صبح دفتری اوقات میں ٹریفک کی ہجوم اور پھر سامنے سے غیر قانونی طور پر آنے والے موٹر سائکل اور رکشوں کی وجہ سے ٹریفک جام رہتا ہے اور ٹریفک پولیس اس علاقے میں جب سے میٹرو بس کا سڑک بن گیا ہے نظر نہیں آتی۔ ایک بات کراچی کی خوش آئند یہ ہے کہ 2018 ء کے بہ نسبت اس سال گندگی کے ڈھیر صدر، گرو مندر، گارڈن اور پٹیل باڑہ کے علاقوں میں معمولی بہتری نظر آئی، میں جس سواری سے بھی کہیں جاتا تھا تو ڈرائیور سے پوچھتا تھا ہر ایک زرداری کو اور پیپلز پارٹی کو کوستا تھا لیکن سب کے سب کمال مصطفی اور ایک اور بندے کے علاوہ خاص کر پیپلز پارٹی کو مغلضات بکتے تھے کہ کسی نے کچھ نہیں کیا۔ مزار قائد پر مرمت کا کام جاری ہے اس کے گرد باغ، زیر زمین قبور اور میوزیم دیکھنے کی اجاذت ہے میوزیم میں چند ایک اشیا جو کہ بالکل گیر متعلقہ لگے جن میں چند بندوقیں اور تلواریں جن کو قائد سے منسوب کیا گیا ہے ایسا لگتا ہے کہ قائد گویا پانی پت کی لڑائیوں میں حصہ لیتا رہا ہو، اس کے علاوہ ایک جگہ درجن بھر ایش ٹرے رکھے گئے تھے،کیاقائد اتنا غیر محتاط تھے کہ دس بارہ ایش ٹرے رکھے ہوں۔ اس کے علاوہ بڑی بڑی کاریں رکھے گئے ہیں اگر یہ کار قائد کی ملکیت تھیں تو پھر زندگی کے آخری دنوں میں جب کوئٹہ سے کراچی بذریعہ ہوائی جہاز گئے تھے تو ان کو ان بڑے بڑے کاروں کی بجائے اُس کٹارا ایمبولینس میں کیوں لے گئے تھے جس میں نہ اوکسیجن تھا نہ پیٹرول، اگرقائد کے استعمال میں یہ کاریں نہیں تھیں تو پھر یہ ڈڑامہ کیوں رچایا گیا ہے ، اس طرح کی دو کاریں شکر پڑیاں کی میوزیم میں بھی شو پیس کے طور سجائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی اشیاء غیرضروری طور پر رکھے گئے ہیں۔ بہر حال پاکستانی قوم اور پھر کراچی اور سندھ کے عوام کے لئے دعا ہے کہ اللہ ان کو شعور دے اور وہ پنا نمائندہ ان لوگوں کو چن لیں جو اس ملک کے لئے کام کرے۔ کراچی میں ایک بات جو مجھے سب سے اچھی اور پسند آئی وہ رکشوں کے کرایے ہیں جو نہایت مناسب ہیں اسکی دو مثال میں دونگا کہ میں گارڈن ویسٹ علی بھائی آڈیٹوریم سے کیماڑی پل تک گیا جو کہ تقریباََ پنتالیس منٹ کا سفر تھا لیکن رکشہ والے نے صرف دو سو روپیہ لیا اور واپسی پر کریمی سے ایر پورٹ آگیا جو اسی علی بھائی آڈیٹوریم سے آیا تھا تو اس نے صرف ساڑھے پا نچ سو روپیہ لیا جب کہ راولپنڈی میں صادق آباد سے صدر کوئی بہت رش ہو تو پچیس منٹ کا راستہ ہے رکشہ والے تین سو سے کم کی بات سنتے ہی نہیں۔ اور اسلام اباد انٹر نیشنل ایر پورٹ سے صادق اباد کا کریہ پندرہ سو مجھ لیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام اباد اور راولپنڈی میں کرایے دوگنی وصو ل کی جاتی ہے۔ آخر میں جوبلی لائف انشورنس کاشکر گذار ہوں کہ اس نے مجھے اور میری بیوی کی طرح اور بہت سے لوگوں کو ایک بہترین ہوائی سفر اور کراچی میں ایک روزہ قیام و طعام کا بندوبست کیا اور یک بر رونق تقریب کا حصہ بنایا ۔ جوبلی لائف تیر شکریہ۔
جاوید احمد ساجد ( سلطان آباد یاسین) کیمپ صادق آباد ،راولپنڈی
بروز منگل ، 15 جنوری 2022ء