بھکاری

بھکاری
تحریر:جاوید احمد
پاکستان میں جہاں بے روزگاری روز بروز بڑھتی جاتی ہے تو وہاں بھکاری بھی طرح طرح کے روپ میں سامنے آتے ہیں، کوئی روتا پیٹتا ہے تو کوئی جالی معزور اور بعض ہٹے کٹے لوگ بھی مانگتے پھرتے ہوتے ہیں، اس طرح اصل حقدار کا پتہ نہیں چلتا کہ کون حقدار ہیں کون نہیں۔ پچھلے کئی سالوں سے ایک کوہستانی بوڑھے سے واسطہ رہا ہے وہ دیکھنے میں بھکاری نہیں لگتا ایک ھشاش بشاش، لمبے دھڑنگے اور ایک بھرے ہوے جسم کا مالک اور سفید داڑھی، بال بھی سفید ایک آنکھ سے ذرہ معزور ہے۔ وہ اکثر غزالی روڑ پر برف خانے کے سامنے والی بجلی کے کھمبے میں ایک گو دھڑی تہہ کر کے رکھتا ہے اور جب آتا ہے اُسے اتار کر نیچے بچھاتا ہے اور بارہ بجے تک بیٹھتا ہے کبھی کھمبے کے ساتھ کبھی سامنے بیٹھتا ہے۔ میں اکثر ان کے پاس اتوار یا کسی چھٹی کے روز بیٹھ جاتا ہوں کیوں کہ وہ بھکاری نظر نہیں آتا بڑ ا بزرگ سا لگتا ہے،
اس کا کہنا ہے کہ وہ پٹن کوھستان کا رہنے ولا ہے لیکن پٹن کے زلزلے میں اس کاسارا جائداد تباہ ہو گیا اور سب کچھ اجڑھ گیا اور ہمارے پاس کچھ بھی نہیں بچا اور ہجرت کر نے پر مجبور ہوا اور بال بچے مانسہرہ میں رہتے ہیں، میں اِدھر مانگ کر گذارہ کرتا ہوں اور کچھ بچا کر دو تین ہفتے بعد گھر سے ہو کر آتا ہوں، وہ چاہ شا سلطا ن کے احاطے میں کہیں رہتا ہے جو کہ ایک کمرہ بلکہ ایک بسترہ کرایہ پر حاصل کیا ہے اور وہی رہتا ہے، صبح کے وقت وہ غزالی روڈ پر آتا ہے اور بارہ بجے کے بعد غائب ہو جاتا ہے جب میں نے ان سے پوچھا کہ وہ بارہ بجے تک ادھر بیٹھتا ہے کیا اتنا کماتاہے کہ گھر بار چلا سکے تو اس کا کہنا تھا کہ دوپہر کا کھانا کھا کر وہ کچھ دیر ارام کرتا ہے پھر شام تک سنٹر ہسپتال کے نزدیک اصغر مال کے سامنے بیٹھ جاتاہے، میں نے جب پوچھا کی کیا کماتا ہے تو اس کا کہنا تھا کہ گذار ا ہو جاتا ہے، بہت زور دیا تو کہا کہ پانچ چھ سو ہو جاتا ہے، لیکن ایک دن ایک سبزی والانے بتایا کہ وہ بھی مانسہرہ کا رہنے ولا ہے اور وہ اس کو جانتا ہے، مزید بتا یا کہ وہ کافی پیسہ جمع کرتا ہے لوگ اسے بہت پیسہ دیتے ہیں،سبزی والے نے بتایا کہ وہ آج بھی مجھ سے ایک ہزار روپے کا ریز گاری دے کر ہزار کا نوٹ لے گیا، ابھی دن کے ایک نہیں بجے تھے، گویا وہ شام تک دو ہزار روپے ضرور کماتا ہو گا، کیوں کہ دوپہر کا کھانے کھانے نماز پڑھنے اور آرام کر نے کے بعد وہ سنٹر ہسپتال کے نزدیک شام تک بیٹھتا ہے، میں نے جب اس سے پوچھا کہ کافی دنوں کے بعد نظر آئے ہو کدھر گئے تھے تو کہنے لگا کہ گھر گیا تھا، تو میں نے پوچھا کہ کیا آپ کی بوڑھی یعنی بیوی ہے تو کہنے لگا کہ بوڑھی ہے لیکن بیمار رہتی ہے کیا کروں کبھی کبھی خیا ل آتا ہے کہ ایک اور شادی کروں لیکن پیسے نہیں ہوتے مجبوری ہے، ادھر اس کا علاج بھی نہیں کرا سکتا تو مجھے بڑی حیرانگی ہوئی اور میں نے پوچھا کہ آپ کی عمر کیا ہے تو کہنے لگا کہ ستر بہتر سال، میں نے کہا کہ خدا کے بندے اس عمر میں دوسری شادی کا سوچ رہے ہو جو تمھارے بچو ں کی ماں ہے جس نے زندگی بھر تمھارا ساتھ دیا اُس کی علاج نہیں کرا سکتے اور دوسری شادی کا سوچ رہے ہو کچھ خدا خوفی کرو تو کہنے لگا دیکھو شادی کوئی نا جائز تو نہیں ادھر اُدھر دوسروں کی طرف بری نظر سے دیکھنے کی بجائے شادی کی جائے تو میں نے کہا کہ بھائی وہ تو تمھاری عمر نہیں رہی اِس عمر میں بھی آپ دوسروں کا بھی خیال رکھتے ہیں، اور کہتے بھی خود ہو کہ پیسے بھی نہیں اگر پیسے بچا سکتے ہو تو بچا کر حج پر جاؤ چھوڑ دو دوسری شادی، اُس روز اس سے کافی گپ شپ کر کے آگے چلا گیا کچھ دور جاکر مجھے خیال آیا کہ اس کو ایک کپ چائے بھی پلایا جائے اور مزید کچھ باتیں کی اور پوچھی جائیں، جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ قیصر جنرل سٹور کی طرف جارہا تھا اور صرف دو سٹپ سیڑھیاں چڑھنے کے لئے وہ بے چارہ گٹھنے پگڑ کر مشکل سے چڑھ گیا میں کھڑا رہ کر اُس کو دیکھنے لگا تو واپس اُترتے ہوے پہلے سے بھی زیادہ مشکل محسوس کر رہا تھا پھر دوسری دکان میں تندور والے کی سیڑھیاں بھی اسی طرح سے چڑھا تو میں نے سوچا کہ یہ تو کافی وقت لگائے گا بعد میں پتہ چلا کہ وہ چھوٹے نوٹ دے کر ہزار کا نوٹ حاصل کر نے لئے دوکانداروں کے پاس جارہا تھا، وہ پھر گرتے پڑتے تندور والے کی دکان سے بھی نیچے اُترا تو میں بھی آگے بڑھا اور سوچنے لگا کہ سچ کہتے ہیں کہ آدمی اور گھوڑا کبھی بوڑھا نہیں ہوتا اگر انسان بوڑھا چاہے جتنا ہو دل جوان رہتا ہے لیکن اس بوڑھے کو تو جوان رہنے کی خبط سی تھی، میں یہ سوچتے ہوے آگے بڑھا کہ اس بندے کے گٹھنے بھی ساتھ چھوڑ گئے ہیں لیکن شادی کا بھی سوچ رہا ہے شاید زیادہ کماتا ہے۔
مانگنے کے اپنے اپنے انداز: کئی سال پہلے کی بات ہے میں ، اسلم پرویز ششکٹ اور ہمارا منیجر علاالدین صاحب علاالدین کی گاڑی میں چراہ روڈ پر کہیں جارہے تھے تو ایک جگہ ٹریفک جام ہو گیا اسی اثنا میں پسینہ بہاتی ہوئی ایک ہٹی کٹی جوان عورت نے ہاتھ پھیلایا تو میں نے دس روپے دیا تو اسلم پرویز ناراض ہو گئے کہ کیوں دیا ہے یہ ضرورت مند نہیں بھکاری ہے تو میں نے کہا کہ یا ر اتنی دھوپ میں کھڑی ہے مانگ رہی ہے تو اسلم کہنے لگے کہ ایک دن پہلے بھی اس نے ہم سے بھیک مانگا تو میں نے اس سے کہا کہ ٹھیک ٹھاک صحت مند ہو محنت مزدوری کیوں نہیں کرتی، گھروں میں کام کرو ،شام تک ٹھیک ٹھاک پیسے کماؤگی تو کہنے لگی کہ کیا میری محنت آپ کو نظر نہیں آتی اس گرم دھوپ میں کھڑی ہوں پسینہ بہا رہی ہوں اور کس قسم کی محنت۔ یہ الفاظ میں نے سنا تو کہا کیا خوب فلسفہ پیش کیا ہے بھیک مانگنے کی،وہ گرمی کی وجہ سے پسینہ بہنے کو بھی محنت مزدوری کہہ رہی تھی۔
ایک دو سال پہلے کی بات ہے کہ میں اور میری بیوی صبح کی نماز کے بعد جب جماعت خانے سے واپس آرہے ہوتے تھے تو ہم نے یہ مشاہدہ کیا کہ دو خواتین ایک سوزوکی سے اُتر کر سوزوکی والے سے کچھ بات کرتی اور بلال مسجد کے سامنے آکر ڈیرے ڈھالتی اور بھیک مانگتی تھیں اور ایک دن یہ بھی میرے مشاہدے میں آئی کہ دھوپ نکلنے کے بعد اُسی جگہ سے وہی سوزوکی اُن کو اُٹھا کر لے گئی اور کئی دنوں کی مشاہدے کے بعد تو مجھے شک ہوا کہ ہو نہ ہو یہ کسی گروپ کا حصہ ہوں۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ یہ عورتیں یا کسی ادارے کی کارندے ہیں یا کسی کے پالتو بھیک مانگتے ہیں۔ میں نے اسی روز بلال مسجد کے سامنے والی گلی میں ایک سکیوریٹی والے کو بتایا کہ وہ ان عورتوں کو چک کرے کہ یہ کدھر سے آتی ہیں ان کو ایک سوزوکی لاتی ہے اور لے جاتی ہے ان سے پوچھو یہ کس کے لئے کام کرتی ہیں۔ میں نے سکیوریٹی والے کی تعریف کی کہ وہ یہ اختیار رکھتا ہے اور اس کی ڈیوٹی میں شامل ہے یہ نہ ہو کل کو کوئی ہادثہ ہو تو اُ س سکیوریٹی والے نے اُن سے پوچھا اور وضاحت چاہی تو وہ عورتیں اُ س دن کے بعد غائب ہو گیئں اور آج تک ان کی شکل نظر نہیں آئی معلوم نہیں وہ کسی خار کار کے کارندے تھیں یا کسی کیمپ میں مقید مجبور۔وللہ عالم بالصواب
ایک دفعہ بہت پرانی بات ہے کہ میں اور اس وقت کا طالب علم اور آج کا چیف انجینیر فرمان صاحب دونوں ملیٹری ہسپتال راولپنڈی سے واران بس کی اڈے کی طرف جارہے تھے، ان دنوں میں میرے والد صاحب ملیٹری ہسپتال کے سکن وارڈ میں داخل تھے۔ جب ہم دونوں واران بس کے اڈے کے قریب پہنچے تو ایک ہٹا کٹا نوجوان ایک دم سامنے آگیا اور کڑک کر کہا کہ مجھے صرف دس روپے چاہئے تو میں نے بھی بغیر وقت ضایع کیے نکال کر دے دیا تو فرمان حیران ہو کر کہنے لگا ماموں آپ نے اس بھیک مانگتے کو دس روپے کیوں دیا تو میں نے ہنس کر جواب دیا شاید اُسے واقع ہی ضرورت ہو، تو اس نے کہا کہ وہ تو عادی بھیک مانگتا لگتا تھا۔ اُن دنوں یعنی 1988 میں دس پیسے، چوانی، یا اٹھنی بھیک میں دیا جاتا تھا لیکن میں نے دس دیا تو فرمان صاحب نے حیرانگی کاا ظہار کیا اور ہم ہنستے اس پر تبصیرہ کرتے ہوے واران میں جابیٹھے۔ انہی دنوں کی بات ہے کہا جاتا تھا کہ سی ڈی اے کا چیر مین اور اُس کی بیگم صدر میں چھوٹے بازار کے باہر ہاتھی چوک میں ٹریفک میں پھنس گئے تو ایک لمبا تڑھنگا ٹیڑھی جنٹلمین نوجوان نے ہاتھ پھلایا تو چیر مین نے ایک روپیہ اُس کے ہاتھ میں رکھا تو جنٹلمین نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ کہا کہ صاحب اپنی پوزیشن بھی دیکھو میری پوزیشن بھی اور بھیک کی پوزیشن بھی تو چیرمین سی ڈی اے حیران ہو کر اس کی طرف دیکھا اور پوچھا کی کتنی جماعتیں پڑھی ہیں توکہنے لگا کہ میں نے بارہ جماعت پاس کیا ہے تو چیر مین نے پوچھا کہ ملازمت کیوں نہیں کرتے تو جنٹلمین نے کہا کہ نوکری کون دیتا ہے تو چیرمین سی ڈی نے کہا کہ چلو میرے گاڑی میں بیٹھو میں تمھیں ملازمت دے دیتا ہوں تو نوجوان نے پوچھا کی کیا نوکری دوگے تو چیرمین نے کہا کہ ایل ڈی سی یا زیادہ سے زیادہ یو ڈی سی اور نہیں تو کیا تمھیں میں چیرمین سی ڈی اے تو نہیں لگا دوں۔ تو فوراََ کہا کہ یہ نا کہ بارہ سو تنخواہ دو گے تو کیا تمھیں بیس ہزار دیدوں تو بھیک مانگنے والا جنٹلمین نے کہا کہ و ہ بارہ سو میرے نام لگا کر خود کھا لو میں ایک د ن میں بارہ سو سے زیادہ کماتا ہوں تو چیرمین کی بیوی نے ہنس کر کہا چیرمین صاحب بس کرو چلو اپنی اوقات تو دیکھا بھیک مانگنے والے کے نام نوکری لگا کر بارہ سو خود کھا لو چیر مین نے اپنے ماتحتوں کے ساتھ میٹنگ میں بات کیا کہ دیکھو وہ بندہ ماہ کا چھتیس ہزار کما رہا ہے اور ادھر چیرمین کی تنخواہ بھی اتنی نہیں ہے۔ او رآج 2021 جنوری کی 29 تاریخ کو میں دو تین دفتروں میں جا کر کئی بندوں سے مل کر ایک بھی انشورنس پالیسی سیل نہ کر ا سکا اور پیدل ہی سوچ میں گم آرہا تھا کہ ایک موٹر سائکل والے نے بالکل سامنے آکر بریک لگائی اور آف کیا تو میں گھبرا گیا کہ یہ ابھی پستول نکال لے گا لیکن خیر بھلا ہو اس کا، اس نے بھی فوراَ تیس روپے کا تقاضا کیا کہ میں پرس بھول آیا ہوں تھوڑہ پٹرول ڈالوادونگا میری مدد کرو،میرے پاس ٹوٹے صرف بیس روپے تھے نکال کر اس کے حوالہ کیا اور معزرت بھی کیا کہ یہی ہیں تو کہا کہ یہی ٹھیک ہے اور چلتا بنا۔ اور وہ اگلے گاہک کی تلاش میں چلتا بنا معلوم نہیں شام تک کتنا کمایا، لیکن ادھر میں دن بھر مختلف لوگوں کے دفتروں میں گیا تو ہر دفتر سے پھر کبھی کا سن کر نکل گیا اور شام کو تھک ہار کر گھر آگیا۔
اسی طرح ایک عورت کافی سالوں سے بلال مسجد کے سامنے بیٹھتی ہے برقع پہنا ہو تا ہے معلوم نہیں سچ مچ کی روتی ہے یا ایکٹنگ کرتی ہے یا کوئی ٹیپ چلاتی ہے کئی سالوں سے وہ اسی انداز میں بھیک مانگتی اور روتی رہتی ہے بڑی درد ناک آواز سے روتی ہے بچوں کے بارے میں کچھ کہتی ہے اور مانگتی رہتی ہے اور پاکستانی دیتے جاتے ہیں کوئی یہ نہیں پو چھتا کہ پچھلے کئی سالوں سے یہ اسی طرح مانگتی ہے آخر قصہ کیا ہے۔یعنی یا الٰہی ماجرہ کیا ہے، عمران خان کی حکومت نے ان لوگوں کے لئے شلٹر بھی بنائے ہیں۔ اگر حکومتی کارندے ان بھیک مانگتوں کو پگڑ کر ان شلٹر میں لے جایئں اور بھیک مانگنے پر پابندی لگایا جائے کہ حکومت نے ان کے لئے بندوبست کیا ہوا ہے تو شاید ان بھیک مانگتوں کی وجہ سے جو ہٹے کٹے لوگ بھیک مانگتے ہیں وہ بھی مانگنا چھوڈیں گے اور شاید بھکاری پن ختم ہو۔ ہاں یاد آیا ایک دفعہ ایک نوجوان ہمارے دفتر آگیا اور روہانسا ہو کر کہنے لگا کہ میری امی بیمار ہے ہمیں تنخواہ نہیں ملی ہے میرے پاس پیسے نہیں گھر جانا ہے دوسو روپے ادھار دیدو میں واپسی پر آپ کو ادا کرونگا تو میں نے کہا کیا آپ سچ کہہ رہے ہیں کہ آپ کی ماں بیمار ہے تو وہ قسمیں کھانے لگا میں نے دو سو روپیہ دے دیا اور اُس سے کہا کہ اگر زندگی نے موقع دیا تو واپس کر دینا، لیکن آج تک اس بندے کا پتہ نہیں چلا اور مجھے بھی آج ہی یاد آیا، معلوم نہیں اس کی ماں بیمار تھی یا وہ روزانہ اُسے بیمار بنا کر کرایہ حاصل کرتا تھا واللہ عالم باالصواب۔
صادق آباد کی گلیوں میں ایک معزور شخص بھی ہوتا تھا ابھی پچھلے ایک دو ماہ سے نظر نہیں آرہا ہے اللہ اُس کو زندگی دے وہ واقع معزور ہے اور ایک ٹین کا ڈبہ اپنے آگے آگے گھسیٹتا رہتا ہے اور اپنے سیٹ کے نیچے ایک ربڑ باندھ کر خود بھیگ گھسیٹتا جاتا ہے۔ ایک دن میں نے اُس سے کہا کہ میں اسے ہا شو فونڈیشن والوں سے درخواست کر کے ایک ویل چیر دلاتا ہوں اس پر بیٹھ کر چلایا کرو اس طرح گھسیٹنے سے جو تکلیف ہوتی ہے اُس سے بچ جاؤگے تو کہنے لگا نہیں میں کرسی پر بیٹھ کر مانگوں گا تو بھیک کم ملے گا۔ تو میں سوچنے لگا کہ یہ لوگ عادی ہو چکے ہیں او ر اس طرح زیادہ شاید کماتے ہیں اپنی جان کی پرواہ نہیں کمانے کو ترجیح دیتے ہیں یہ نہیں سوچتے کہ یہ کماتا میں ہوں اور کھاتے ہٹے کٹے گھر والے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔آمین۔
جاوید احمد ساجد سلطان آباد ی کیمپ راولپنڈی 30

اپنا تبصرہ بھیجیں