” گلگت بلتستان حقیقی قیادت سے محروم خطہ ”

” گلگت بلتستان حقیقی قیادت سے محروم خطہ ”
از قلم: نبیل گلگتی
گلگت بلتستان پاکستان کے شمال میں 28 ہزار مربع میل پر واقع حسین و جمیل قدرتی نظاروں سے مالا مال اونچے و بلند بالا پہاڑ جنکے سینوں میں کئی قدرتی جواہرات پوشیدہ ہیں،پہاڑوں پر سر سبز جنگل و اونچے آبشار اور بہتے ہوئے کئی نیلے دریاؤں اور وسیع صحراؤں پر مشتمل ایک ایسا بد نصیب خطہ ہے۔جو اول سے بیرونی طاقتوں کا زیر استعمال رہا ہے۔1947ء میں ریاست جموں و کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے گلگت میں متعین گورنر بریگیڈیئر گھنسارا سنگھ کو مقامی فورس گلگت اسکاؤٹس کے ساتھ مل کر فوجی بغاوت کے ذریعے گرفتار کیا اور اس کے ساتھ ہی گلگت میں آزادی کا سورج طلوع ہوا۔جس کے بعد جمہوریہ گلگت کے نام سے ایک آزاد ریاست کا قیام عمل میں آیا۔ اور اسی ریاست کے راجہ شاہ رئیس خان صدر اور کرنل مرزا حسن خان فوجی سربراہ مقرر ہوئے۔ پندرہ روز بعد گلگت کے عوام نے اسلامی رشتے کی بنیاد پر مملکت خداداد پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا۔جو کہ 18 نومبر 1947 کو گلگت و ملحقہ علاقوں کے پاکستان میں شمولیت پر باقاعدہ دستخط ہوئے۔یوں گلگت بلتستان کی آذادی پر مہر ثبت ہوئی۔جس کے دو سال بعد معاہدہ کراچی طے پایا جو 28 اپریل 1949 کو حکومت پاکستان آزاد جموں کشمیر اور مسلم کانفرنس کے مابین ایک معاہدہ طے پایا جس سے معاہدہ کراچی کے نام سے جانا جاتا ہے۔اس معاہدے کی رو سے حکومت پاکستان اور حکومت آزاد کشمیر کے درمیان تقسیم کار کی تفصیلات طے کی گئیں۔ اس معاہدے کی ایک شق کے مطابق ریاست جموں کشمیر کے علاقہ جات گلگت، بلتستان کے تمام معاملات عارضی طور پر حکومت پاکستان کے مقرر کردہ پولیٹیکل ایجنٹ کی وساطت سے حکومت پاکستان کو منتقل کر دیئے گئے جسکے بعد 28 ہزار مربع میل پر مشتمل ریاست جموں کشمیر کا یہ علاقہ اب تک حکومت پاکستان کے کنٹرول میں ہے حالانکہ یہ علاقے تاریخی،ثقافتی اور آئینی طور پر پاکستان کا حصہ نہیں ہیں۔پاکستان کے کسی بھی آئین میں انہیں پاکستان کا حصہ ظاہر نہیں کیا گیا اور نہ ہی جموں و کشمیر کے قانونی و آئینی حل تک ریاست پاکستان اپنا قانونی و آئینی حصہ بنا سکتی ہے۔یہی وجہ ہے گزشتہ پچھتر سالوں سے ریاست پاکستان گلگت بلتستان کے مظلوم عوام کو قانونی و آئینی حقوق دینے سے قاصر ہے محض اپنی تحویل میں ظلم و بربریت ڈھاتی آرہی ہے۔اور اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کو گلگت بلتستان کی مظلوم و محکوم عوام و انکے بنیادی ضروریات و مسائل سے کوئی سروکار نہیں۔انہیں محض گلگت بلتستان کے قدرتی وسائل کی لوٹ مار و جغرافیائی اہمیت یعنی سرحدوں سے واسطہ ہے جس کا زندہ مثال پاک چائنہ اقتصادی راہداری (سی۔پیک) ہماری نظروں کے سامنے ہے اگرچہ اس منصوبے کا بنیادی مقصد گوادر بندرگاہ کو مثبت رابطوں کی فراہمی اور پاکستان کے شمال سے لیکر جنوب تک کے تمام پسماندہ علاقوں کی معاشی و معاشرتی ترقی شامل تھی مگر بد قسمتی سے اس بڑے منصوبے کا گیٹ وے کہلانے والے گلگت بلتستان کو نظر انداز کردیا گیا۔اور اس منصوبے سے جڑے تمام چھوٹے بڑے منصوبہ جات کو پنجاب،سندھ اور بلوچستان میں منتقل کر دیئے گئے۔اندورن سندھ و پوٹھوہار ریجن میں 150 ملین ایکڑ اراضی ہے جو کہ بنجر ہے اور اس کی کوئی واضح نشوونما نہیں ہے اور حکومت نے محکمہ زراعت اور سی پیک منصوبوں کے تحت زمین کی ترقی اور نشوونما کے لئے اور غیر ملکی اور مقامی سرمایہ کاروں کو بہتر خیالات اور خوبصورت سرمایہ کاری کے لئے آنے کے لئے مدعو کیا ہوا ہے۔اسکے علاؤہ پنجاب،سندھ اور بلوچستان میں انفراسٹرکچر کے بڑے پراجیکٹ اور موٹرے وئے،ہائیڈرو پاور کے پراجیکٹ وغیرہ شامل ہیں مگر اس منصوبے کے گیٹ وے گلگت بلتستان کیلے کچھ نہیں رکھا گیا۔جسکی وجہ اور پالیسی نوآبادیاتی نظام ہے جس سے مراد کسی ایک علاقے کے لوگوں کا دوسرے علاقے میں جا کر اپنی نئی آبادیاں قائم کرنا اور مختلف سیاسی و سماجی حربوں کو استعماال کرتے ہوئے وہاں کی ثقافت اور تہذیب کو بگاڑ دینا اور اردگرد کے علاقوں پر قبضہ کر کے اسے توسیع دینا ہے۔جہاں یہ نوآبادی قائم کی جاتی ہے وہاں کے اصل باشندوں پر قابض گروہ عموماً اپنے قوانین، معاشرت اور حکومت بھی مسلط کر دیتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ قابض گروہ اور نوآبادی کے اصل باشندوں کے درمیان نا انصافی اور جبر پر مبنی ایک تعلق ہے جس میں اصل باشندوں کا استحصال ہوتا ہے۔جس کے توڑ اور حل کے لیے مقامی لوگوں کے رہنماؤں کی بہادری،دلیری،دانشمندی،حب الوطنی،قوم پرستی، قربانی،ثابت قدمی،فراخدلی اور صبر و تحمل کے ساتھ اپنی قوم کو حقائق سے اور ان پر ڈھائے جانے والے مظالم سے آگاہ کرنا اور قومی و بین الاقوامی سیاست میں آنے والی تبدیلیوں سے باخبر رکھتے ہوئے قوم و خطہ پر ہونے والے مظالم اور اپنے آئینی وقانونی حقوق کے حصول کے لیے عوامی تحریک کی رہنمائی کرنا ہے۔مگر بد قسمتی سے اپنی مدد آپ ڈوگروں سے آزادی حاصل کرنے والی سر زمین گلگت بلتستان کے آج کے باسیوں میں سیاسی شعور، حب الوطنی و قوم پرستی کی کمی اور بیرونی طاقتوں اور سرمایہ داروں سے دوستی،جی حضوری و غلامی ہے۔جسکی بنیادی وجہ حقیقی لیڈر شپ کا فقدان ہے۔جن شخصیات کو گلگت بلتستان کے لوگ اپنے لیڈر مانتے ہیں چاہیے وہ سیاسی ہو سماجی ہو یا مذہبی سبھی موقع پرست،مطلب پرست،مفاد پرست ہے جو گلگت بلتستان کی قانونی و آئینی حقائق کو جانتے ہوئے وہاں کی عوام پر ہونے والے مظالم اور ناانصافیوں کو دیکھتے ہوئے عوام کے حق میں کھڑے ہونے کی بجائے۔اب تک چاپلوسی اور اپنی منافقانہ سیاست کے ذریعے بیرونی طاقتوں سے مل کر اپنے مفادات حاصل کرتے ہے مگر قوم و خطہ کو ہمیشہ محروم رکھا جارہا ہے جس کے باعث یہ قدرتی وسائل سے مالامال و جغرافیائی اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل خطہ دنیا کے ترقی یافتہ ملک چائنہ کا بارڈر رکھنے کے باوجود غربت کا خاتمہ نہیں کر سکا، پہاڑوں کے سینوں میں کئی قیمتی جواہرات موجود ہے مگر علاقہ بد حالی کا شکار ہے دریا ہے بجلی نہیں، زمینیں ہے آٹا نہیں، کیا کیا گنوا دوں رب نے ہر چیز عطا کی ہوئی ہے مگر حکمرانوں کی منافقانہ سیاست اور نوآبادیاتی نظام کے باعث خطہ میں کہیں ترقی نظر نہی آرہی ہے۔ہر جگہ و ہر شعبہ میں بدحالی نظر آرہی ہے نہ تعلیمی میدان میں کوئی معیاری سہولیات یعنی میڈکل کالج،انجینیرنگ کالج اور نہ میڈیکل و انجنیرنگ یونیورسٹی میسر ہے اور نہ ہی صحت کے شعبہ میں افسوس کا مقام ہے اس خوبصورت خطہ میں وہاں کی عوام کی سہولت کے لیے کوئی معیاری ہسپتال موجود نہیں۔غریب عوام کو اپنے علاج کے سلسلے میں صوبہ پنجاب اور سندھ کے شہر کراچی تک جانا پڑتا ہے جو کہ غریب عوام کے ساتھ انہتائی زیادتی ہے مگر عوامی نمائندوں کو کوئی احساس نہیں موجود ملکی حالات اس قدر ناساز گار ہوچکے ہے کہ غریب عوام کو پاکستان میں ہی جینا محال بن گیا ہے اور ایسے میں وفاقی حکومت کی طرف سے خیرات میں ملنے والی اشیاء بالخصوص آٹا گلگت بلتستان میں اس قدر نایاب ہوچکا ہے کہ عوام در بدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہیں اور پریشان حال ہے۔مگر ان حالاتِ میں بھی ظالم حکمران کو کوئی فکر نہیں،بجلی کے بلوں میں بے تحاشہ اضافہ و دیگر اشیاء خوردونوش میں اضافی ٹیکسز لگائے جارہے ہیں اور ساتھ ہی عوامی زمینوں کو بھی ہتھیانے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے مگر عوامی نمائندے جن کو حلقے کی عوام اپنے حقوق کی تحفظ اور حصول و علاقے کی ترقی کے لیے اپنا قیمتی ووٹ دے دیتی ہے وہ اپنی سیاست بچانے اور چمکانے میں مصروف عمل ہے۔اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالا جارہا ہے دھمکیاں دی جارہی ہے۔مگر عوامی مسائل کی حل اور موجودہ درپیش عوامی مسائل کے حل کے لیے مل بیٹھ کر بات کرنے کو کوئی تیار نہیں کیونکہ یہ حقیقت میں عوامی نمائیندے نہیں یہ وفاقی پارٹیوں سے منسلک رہ کر مختلف سمجھوتہ بازیوں اور چاپلوسیوں کے ذریعے ذاتی مفادات حاصلِ کرنے والے مفاد پرست ٹولے ہیں۔اور محکمہ بھی ٹس سے مس نہیں بنیادی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کی بجائے سیاحت کے فروغ کے نام پر مختلف جگہوں پر فیسٹول کروائے جارہے ہیں۔اور پھر میڈیا بھی عوام کے بنیادی مسائل کو اجاگر کرنے کی بجائے انہیں کھیل کود کے فیسٹول کو اجاگر کر رہی ہے جس سے عوامی مسائل اعلیٰ ایوانوں تک پہنچنے اور زمہ داروں کے لیے باعث شرمندگی بننے سے قاصر رہتے ہیں۔لہذا گلگت بلتستان کی عوام کو چاہیے کہ اپنے خطہ کی قانونی و آئینی حیثیت کو جانتے ہوئے اپنے درمیان سے کسی ایسے شخص کو اپنا لیڈر منتخب کریں جو ہمیشہ حقیقی معنوں میں اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑے رہے انکے حقوق و مسائل کے حل کے لیے ثابت قدمی اور بہادری سے لڑیں تاکہ خود کو سکھ کا سانس لینا نصیب ہوسکیں۔اور وقت آگیا ہے کہ اپنی سیاسی شعور اور حالاتِ حاضرہ و مستقبل پر نظر دوڑاتے ہوئے اپنے رہنماؤں کا انتخاب درست کریں۔ذاتی مفادات کی بجائے قومی و علاقائی مفادات کو ترجیح دیں۔اتحاد و اتفاق کے ساتھ اپنے اوپر ہونے والے مظالم اور ناانصافیوں کے سامنے ایک قوم بن کر ڈٹ کھڑے ہوں اور آواز اٹھائیں ورنہ مستقبل میں اللہ نہ کرے اسے بھی بدترین حالات کا سامنا کرنا پڑے کیونکہ پچھتر سالوں میں ہمیں کچھ نہیں ملا، اب موجودہ معاشی بدحالی و سیاسی حالات میں ہر ایک کو کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں