تنکا ڈنڈا کیسے بن گیا
ایس ایم مرموی
آج آپکو ایک کہانی سنانی ہے جو کہ بڑی دلچسب بھی ہے اور سبق آموز بھی اسکے علاوہ آپ کو بتانا ہے کہ تنکا کیسے ڈنڈا کی شکل اختیار کر گیا ہر دورہ میں زندگی کے کسی بھی شعبے میں کوئی نئی بات، کوئی بدعت، شروع تو خلال کے تنکے ہی سے ہوتی ہے، مگر پھر اس کے پیروکار اسے بڑھا کر لمبا سا اور موٹا سا ڈنڈا بنا دیتے ہیں اور اس پر بھی مطمئن نہیں ہوتے. یہ نٸی نٸی بدعات ہر دورہ کا حصہ رہی ہیں اور اب ماشإ اللہ پورا پورا ایک دین ایجاد ہوا ہے ہر گلی کوچے میں آپکو ایک نٸ نسل مل جاۓ گی جنکی تعداد چار خلیفے اور ایک پیر پر مشتمل ہے ایک نٸے دین کی ایجاد سے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرتی ہے چلیں چھوڑیں اس پر پھر کبھی بات کریں گے پہلے یہ کہانی پڑھیں اور لطف لیں ۔
کہتے ہیں کہ کسی دُور اُفتادہ دیہات میں ایک معزز مہمان آیا۔ بڑی آؤ بھگت ہوئی۔ گاؤں کا گاؤں اُس کے سامنے امڑ آرہا تھا ۔ کھانے کا وقت آیا تو انواع و اقسام کی نعمتیں اُس کے سامنے دسترخوان پر لا کر ڈھیر کر دی گئیں۔ ساتھ ہی ایک لمبا سا اور موٹا سا ڈنڈا بھی لا کر رکھ دیا گیا۔ مہمان نعمتیں دیکھ کر تو خوش ہوا مگر ڈنڈا دیکھ کر ڈر گیا۔ سہمے ہوئے لہجے میں پوچھا:
’’آپ لوگ یہ ڈنڈا کس لیے لائے ہیں؟‘‘۔
میزبانوں نے کہا:
’’بس یہ ہماری روایت ہے۔ بزرگوں کے زمانے سے چلی آ رہی ہے۔ مہمان آتا ہے تو اُس کے آگے کھانے کے ساتھ ساتھ ڈنڈا بھی رکھ دیتے ہیں‘‘۔
مہمان کی تسلی نہ ہوئی۔ اُسے خوف ہوا کہ کہیں یہ تمام ضیافت کھانے کے بعد ڈنڈے سے ضیافت نہ کی جاتی ہو۔ اُس نے پھر تفتیش کی:
’’پھر بھی، اس کا کچھ تو مقصد ہوگا۔ کچھ تو استعمال ہوگا۔ آخر صرف مہمان کے آگے ہی ڈنڈا کیوں رکھا جاتا ہے؟‘‘۔
میزبانوں میں سے ایک نے کہا:
’’اے معزز مہمان ہمیں نہ مقصد معلوم ہے نہ استعمال۔ بس یہ بزرگوں سے چلی آنے والی ایک رسم ہے۔ آپ بے خطر کھانا کھائیے آپکو کچھ بھی نہیں ہوگا
مہمان نے دل میں سوچا:
’’بے خطر کیسے کھاؤں؟ خطرہ تو سامنے ہی رکھا ہوا ہے‘‘۔
پھر اس نے اعلان کردیا:
’’جب تک آپ لوگ یہ نہیں بتائیں گے کہ آپ کے یہاں بزرگوں کے زمانے سے مہمان کے دسترخوان پر ڈنڈا کیوں رکھا جاتا ہے، کیڑے کو پتھر میں رزق پہنچانے والے کی قسم میں آپ کا ایک لقمہ بھی نہیں کھاؤں گا‘‘۔
اب تو پورے گاؤں میں کھلبلی مچ گئی کہ مہمان نے کھانے سے انکار کر دیا ہے۔ گاؤں کے ایک بزرگ بلائے گئے۔ انہوں نے سارا ماجرا سنا اور دسترخوان پر رکھا ہوا ڈنڈا دیکھا تو برس پڑے:
’’ارے کم بختو! تم نے اتنا بڑا ڈنڈا لا کر رکھ دیا اِسے کم کرو۔ ہمارے بزرگ مہمان کے سامنے اتنا بڑا ڈنڈا نہیں رکھتے تھے‘‘۔
ڈنڈا فی الفور آری سے کاٹ کر دو تین فٹ کم کر دیا گیا۔ مگر مہمان پھر بھی مطمئن نہیں ہوا۔ اسے اپنے سوال کا جواب درکار تھا۔ اب ایک نسبتاً زیادہ بزرگ بلائے گئے۔ انہوں نے بھی سارا ماجرا سنا۔ انہوں نے بھی ڈنڈا ناپ کر دیکھا۔ اور انہوں نے بھی اعتراض کیا:
’’ڈنڈا اب بھی بڑا ہے۔ ہمارے بزرگ تو مہمانوں کے آگے ایک چھوٹی سی پتلی سی ڈنڈی رکھا کرتے تھے‘‘۔
مذکورہ بزرگ کے کہنے پر باقی ماندہ ڈنڈا کاٹ کر اور چھیل کر ایک چھوٹی سی ڈنڈی بنا دیا گیا۔ گو کہ اب ڈنڈے کا سائز اور جسامت خطرے سے باہر ہوگئی تھی، مگر مہمان کا تجسس برقرار رہا۔ اب تک آنے والے بزرگوں نے صرف سائز اور خطرات ہی کم کیے تھے۔ اس کا استعمال اور اس کا مقصد کوئی نہ بتا سکا تھا۔
مہمان اب بھی کھانا زہر مار کرنے پر تیار نہ ہوا۔ اب ڈھونڈ ڈھانڈ کر گاؤں کا ایک ایسا بزرگ ڈنڈا ڈولی کرکے لایا گیا جس کے سر کے بال ہی نہیں بھنویں تک سفید ہو چکی تھیں۔ محتاط سے محتاط اندازے کے مطابق بھی بزرگ کی عمر ۹۹ سال سے کم نہ ہوگی۔ سجھائی بھی کم دیتا تھا۔ جب انھیں ڈنڈے کی شکل و صورت اور اس کا سائز تفصیل سے بتایا گیا تو وہ بھڑک کر اپنی لاٹھی ڈھونڈنے لگے۔ چیخ کر بولے: ’’ارے عقل کے اندھو! ہمارے بزرگ مہمان کے سامنے ایک چھوٹی سی پیالی میں ایک ننھا منا سا تنکا رکھا کرتے تھے، تاکہ اگر مہمان کے دانتوں کی ریخوں میں گوشت کا کوئی ریزہ پھنس جائے تو وہ خلال کرکے اسے نکال باہر کرے‘‘۔
حاصل نتیجہ۔۔
زندگی کے کسی بھی شعبے میں کوئی نئی بات، کوئی بدعت، شروع تو خلال کے تنکے ہی سے ہوتی ہے، مگر پھر اس کے پیروکار اسے بڑھا کر لمبا سا اور موٹا سا ڈنڈا بنا دیتے ہیں اور اس پر بھی مطمئن نہیں ہوتے. اور بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں اللہ ہمیں ڈنڈا اور تنکے کے فرق اور اسکے استعمال سے آگاہی عطا فرماۓ ورنہ ۔۔۔۔۔
باپ کا بیٹے پر انوکھا مقدم !!
ایس ایم مرموی
کویت میں ایک بوڑھا آدمی عدالت میں داخل ہوا تا کہ اپنی شکایت (مقدمہ) قاضی کےسامنے پیش کرے-
قاضی نےپوچھا آپ کامقدمہ کس کے خلاف ہے؟ اس نےکہا اپنے بیٹے کے خلاف۔قاضی حیران ہوا اور پوچھا کیا شکایت ہے،بوڑھے نے کہا،میں اپنے بیٹے سے اس کی استطاعت کے مطابق ماہانہ خرچہ مانگ رہا ہوں،قاضی نے کہا یہ تو آپ کا اپنے بیٹے پر ایسا حق ہے کہ جس کے دلائل سننے کی ضرورت ہی نہیں ہے
بوڑھے نے کہا قاضی صاحب ! اس کے باوجود کہ میں مالدار ہوں اور پیسوں کا محتاج نہیں ہوں،لیکن میں چاہتا ہوں کہ اپنے بیٹے سے ماہانہ خرچہ وصول کرتا رہوں.
قاضی حیرت میں پڑ گیا اور اس سے اس کے بیٹے کا نام اور پتہ لیکر اسے عدالت میں پیش ہونے کاحکم جاری کیا۔بیٹا عدالت میں حاضر ہوا تو قاضی نے اس سے پوچھا کیا یہ آپ کے والد ہیں؟ بیٹے نے کہا جی ہاں یہ میرے والد ہیں.
قاضی نے کہا انہوں نے آپ کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے کہ آپ ان کو ماہانہ خرچہ ادا کرتے رہیں چاہے کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو.
بیٹے نے حیرت سے کہا،وہ مجھ سے خرچہ کیوں مانگ رہے ہیں جبکہ وہ خود بہت مالدار ہیں اور انہیں میری مدد کی ضرورت ہی نہیں ہے.
قاضی نے کہا یہ آپ کے والد کا تقاضا ہے اور وہ اپنے تقاضے میں آزاد اور حق بجانب ہیں۔
بوڑھے نے کہا قاضی صاحب!اگر آپ اس کو صرف ایک دینار ماہانہ ادا کرنے کاحکم دیں تو میں خوش ہو جاؤں گا بشرطیکہ وہ یہ دینار مجھے اپنے ہاتھ سے ہر مہینے بلا تاخیر اور بلا واسطہ دیا کریے۔قاضی نے کہا بالکل ایسا ہی ہوگا یہ آپ کا حق ہے.
پھر قاضی نےحکم جاری کیا کہ “فلان ابن فلان اپنے والد کو تاحیات ہر ماہ ایک دینار بلا تاخیر اپنے ہاتھ سے بلا واسطہ دیا کرے گا.
کمرہ عدالت چھوڑنے سے پہلے قاضی نے بوڑھے باپ سے پوچھا کہ اگر آپ برا نہ مانیں تو مجھے بتائیں کہ آپ نے دراصل یہ مقدمہ دائر کیوں کیا تھا،جبکہ آپ مالدار ہیں اور آپ نے بہت ہی معمولی رقم کا مطالبہ کیا؟
بوڑھے نے روتے ہوئے کہا، قاضی محترم !میں اپنے اس بیٹے کو دیکھنے کے لئے ترس رہا ہوں،اور اس کو اس کے کاموں نے اتنا مصروف کیا ہے کہ میں ایک طویل زمانے سے اس کا چہرہ نہیں دیکھ سکا ہوں جبکہ میں اپنے بیٹے کے ساتھ شدید محبت رکھتا ہوں
اور ہر وقت میرے دل میں اس کاخیال رہتا ہے یہ مجھ سے بات تک نہیں کرتا حتیٰ کہ ٹیلیفون پر بھی
اس مقصد کے لئے کہ میں اسے دیکھ سکوں چاہے مہینہ میں ایک دفعہ ہی سہی، میں نے یہ مقدمہ درج کیا ہے
یہ سن کر قاضی بے ساختہ رونے لگا اور ساتھ دوسرے بھی، اور بوڑھے باپ سے کہا،اللہ کی قسم اگر آپ پہلے مجھے اس حقیقت سے اگاہ کرتے تو میں اس کو جیل بھیجتا اور کوڑے لگواتا۔ بوڑھے باپ نے مسکراتے ہوئے کہا
“سیدی قاضی! آپ کا یہ حکم میرے دل کو بہت تکلیف دیتا،
کاش بیٹے جانتے کہ ان کے والدین کی دلوں میں ان کی کتنی محبت ہے،اس سے پہلے کہ وقت گزر جائے۔
باپ کا بیٹے پر انوکھا مقدمہ !!
ایس ایم مرموی
کویت میں ایک بوڑھا آدمی عدالت میں داخل ہوا تا کہ اپنی شکایت (مقدمہ) قاضی کےسامنے پیش کرے-
قاضی نےپوچھا آپ کامقدمہ کس کے خلاف ہے؟ اس نےکہا اپنے بیٹے کے خلاف۔قاضی حیران ہوا اور پوچھا کیا شکایت ہے،بوڑھے نے کہا،میں اپنے بیٹے سے اس کی استطاعت کے مطابق ماہانہ خرچہ مانگ رہا ہوں،قاضی نے کہا یہ تو آپ کا اپنے بیٹے پر ایسا حق ہے کہ جس کے دلائل سننے کی ضرورت ہی نہیں ہے
بوڑھے نے کہا قاضی صاحب ! اس کے باوجود کہ میں مالدار ہوں اور پیسوں کا محتاج نہیں ہوں،لیکن میں چاہتا ہوں کہ اپنے بیٹے سے ماہانہ خرچہ وصول کرتا رہوں.
قاضی حیرت میں پڑ گیا اور اس سے اس کے بیٹے کا نام اور پتہ لیکر اسے عدالت میں پیش ہونے کاحکم جاری کیا۔بیٹا عدالت میں حاضر ہوا تو قاضی نے اس سے پوچھا کیا یہ آپ کے والد ہیں؟ بیٹے نے کہا جی ہاں یہ میرے والد ہیں.
قاضی نے کہا انہوں نے آپ کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے کہ آپ ان کو ماہانہ خرچہ ادا کرتے رہیں چاہے کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو.
بیٹے نے حیرت سے کہا،وہ مجھ سے خرچہ کیوں مانگ رہے ہیں جبکہ وہ خود بہت مالدار ہیں اور انہیں میری مدد کی ضرورت ہی نہیں ہے.
قاضی نے کہا یہ آپ کے والد کا تقاضا ہے اور وہ اپنے تقاضے میں آزاد اور حق بجانب ہیں۔
بوڑھے نے کہا قاضی صاحب!اگر آپ اس کو صرف ایک دینار ماہانہ ادا کرنے کاحکم دیں تو میں خوش ہو جاؤں گا بشرطیکہ وہ یہ دینار مجھے اپنے ہاتھ سے ہر مہینے بلا تاخیر اور بلا واسطہ دیا کریے۔قاضی نے کہا بالکل ایسا ہی ہوگا یہ آپ کا حق ہے.
پھر قاضی نےحکم جاری کیا کہ “فلان ابن فلان اپنے والد کو تاحیات ہر ماہ ایک دینار بلا تاخیر اپنے ہاتھ سے بلا واسطہ دیا کرے گا.
کمرہ عدالت چھوڑنے سے پہلے قاضی نے بوڑھے باپ سے پوچھا کہ اگر آپ برا نہ مانیں تو مجھے بتائیں کہ آپ نے دراصل یہ مقدمہ دائر کیوں کیا تھا،جبکہ آپ مالدار ہیں اور آپ نے بہت ہی معمولی رقم کا مطالبہ کیا؟
بوڑھے نے روتے ہوئے کہا، قاضی محترم !میں اپنے اس بیٹے کو دیکھنے کے لئے ترس رہا ہوں،اور اس کو اس کے کاموں نے اتنا مصروف کیا ہے کہ میں ایک طویل زمانے سے اس کا چہرہ نہیں دیکھ سکا ہوں جبکہ میں اپنے بیٹے کے ساتھ شدید محبت رکھتا ہوں
اور ہر وقت میرے دل میں اس کاخیال رہتا ہے یہ مجھ سے بات تک نہیں کرتا حتیٰ کہ ٹیلیفون پر بھی
اس مقصد کے لئے کہ میں اسے دیکھ سکوں چاہے مہینہ میں ایک دفعہ ہی سہی، میں نے یہ مقدمہ درج کیا ہے
یہ سن کر قاضی بے ساختہ رونے لگا اور ساتھ دوسرے بھی، اور بوڑھے باپ سے کہا،اللہ کی قسم اگر آپ پہلے مجھے اس حقیقت سے اگاہ کرتے تو میں اس کو جیل بھیجتا اور کوڑے لگواتا۔ بوڑھے باپ نے مسکراتے ہوئے کہا
“سیدی قاضی! آپ کا یہ حکم میرے دل کو بہت تکلیف دیتا،
کاش بیٹے جانتے کہ ان کے والدین کی دلوں میں ان کی کتنی محبت ہے،اس سے پہلے کہ وقت گزر جائے۔
بے ایمانی بھی اور سینہ زوری بھی
ایس ایم مرموی !!
ﻛﺴﺎﻥ ﻛﻰ ﺑﻴﻮﻯ ﻧﮯ ﺟﻮ ﻣﻜﻬﻦ ﻛﺴﺎﻥ ﻛﻮ ﺗﻴﺎﺭ ﻛﺮ ﻛﮯ ﺩﻳﺎ
ﺗﻬﺎ ﻭﻩ ﺍﺳﮯ ﻟﻴﻜﺮ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﻛﺮﻧﮯ ﻛﻴﻠﺌﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﺎﺅﮞ ﺳﮯ
ﺷﮩﺮ ﻛﻰ ﻃﺮﻑ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮ ﮔﻴﺎ،
ﯾﮧ ﻣﻜﻬﻦ ﮔﻮﻝ ﭘﻴﮍﻭﮞ ﻛﻰ ﺷﻜﻞ ﻣﻴﮟ ﺑﻨﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﻬﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﺮ ﭘﻴﮍﮮ ﻛﺎ ﻭﺯﻥ ﺍﻳﮏ ﻛﻠﻮ ﺗﻬﺎ۔
ﺷﮩﺮ ﻣﻴﮟ ﻛﺴﺎﻥ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻣﻜﻬﻦ ﻛﻮ ﺣﺴﺐ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﺍﻳﮏ
ﺩﻭﻛﺎﻧﺪﺍﺭ ﻛﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﻛﻴﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﻛﺎﻧﺪﺍﺭ ﺳﮯ ﭼﺎﺋﮯ
ﻛﻰ ﭘﺘﻰ، ﭼﻴﻨﻰ، ﺗﻴﻞ ﺍﻭﺭ ﺻﺎﺑﻦ ﻭﻏﻴﺮﻩ ﺧﺮﻳﺪ ﻛﺮ ﻭﺍﭘﺲ
ﺍﭘﻨﮯ ﮔﺎﺅﮞ ﻛﻰ ﻃﺮﻑ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮ ﮔﻴﺎ . ﻛﺴﺎﻥ ﻛﮯ ﺟﺎﻧﮯ
ﺑﻌﺪ …… ﺩﻭﻛﺎﻧﺪﺍﺭ ﻧﮯ ﻣﻜﻬﻦ ﻛﻮ ﻓﺮﻳﺰﺭ ﻣﻴﮟ ﺭﻛﻬﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ
ﻛﻴﺎ .… ﺍﺳﮯ ﺧﻴﺎﻝ ﮔﺰﺭﺍ ﻛﻴﻮﮞ ﻧﮧ ﺍﻳﮏ ﭘﻴﮍﮮ ﻛﺎ ﻭﺯﻥ ﻛﻴﺎ ﺟﺎﺋﮯ .
ﻭﺯﻥ ﻛﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﭘﻴﮍﺍ 900 ﮔﺮﺍﻡ ﻛﺎ ﻧﻜﻼ، ﺣﻴﺮﺕ ﻭ
ﺻﺪﻣﮯ ﺳﮯ ﺩﻭﻛﺎﻧﺪﺍﺭ ﻧﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﭘﻴﮍﮮ ﺍﻳﮏ ﺍﻳﮏ ﻛﺮ ﻛﮯ
ﺗﻮﻝ ﮈﺍﻟﮯ ﻣﮕﺮ ﻛﺴﺎﻥ ﻛﮯ ﻻﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺳﺐ ﭘﻴﮍﻭﮞ ﻛﺎ ﻭﺯﻥ
ﺍﻳﮏ ﺟﻴﺴﺎ ﺍﻭﺭ 900 – 900 ﮔﺮﺍﻡ ﮨﻰ ﺗﻬﺎ۔
ﺍﮔﻠﮯ ﮨﻔﺘﮯ
ﻛﺴﺎﻥ ﺣﺴﺐ ﺳﺎﺑﻖ ﻣﻜﻬﻦ ﻟﻴﻜﺮ ﺟﻴﺴﮯ ﮨﻰ ﺩﻭﻛﺎﻥ ﻛﮯ
ﺗﻬﮍﮮ ﭘﺮ ﭼﮍﻫﺎ، ﺩﻭﻛﺎﻧﺪﺍﺭ ﻧﮯ ﻛﺴﺎﻥ ﻛﻮ ﭼﻼﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻛﮩﺎ
ﮐﮧ ﻭﻩ ﺩﻓﻊ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ،
ﻛﺴﻰ ﺑﮯ ﺍﻳﻤﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺩﻫﻮﻛﮯ ﺑﺎﺯ ﺷﺨﺺ ﺳﮯ ﻛﺎﺭﻭﺑﺎﺭ ﻛﺮﻧﺎ ﺍﺳﻜﺎ ﺩﺳﺘﻮﺭ ﻧﮩﻴﮟ ﮨﮯ .
900 ﮔﺮﺍﻡ ﻣﻜﻬﻦ ﻛﻮ ﭘﻮﺭﺍ ﺍﯾﮏ ﻛﻠﻮ ﮔﺮﺍﻡ ﻛﮩﮧ ﻛﺮ ﺑﻴﭽﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ
ﺷﺨﺺ ﻛﻰ ﻭﻩ ﺷﻜﻞ ﺩﻳﻜﻬﻨﺎ ﺑﻬﻰ ﮔﻮﺍﺭﺍ ﻧﮩﻴﮟ ﻛﺮﺗﺎ
ﻛﺴﺎﻥ ﻧﮯ ﻳﺎﺳﻴﺖ ﺍﻭﺭ ﺍﻓﺴﺮﺩﮔﻰ ﺳﮯ ﺩﻭﻛﺎﻧﺪﺍﺭ ﺳﮯ ﻛﮩﺎ :
“ ﻣﻴﺮﮮ ﺑﻬﺎﺋﻰ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺑﺪ ﻇﻦ ﻧﮧ ﮨﻮ ﮨﻢ ﺗﻮ ﻏﺮﻳﺐ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﭼﺎﺭﮮ ﻟﻮﮒ ﮨﻴﮟ،
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﺗﻮﻟﻨﮯ ﻛﻴﻠﺌﮯ ﺑﺎﭦ ﺧﺮﻳﺪﻧﮯ
ﻛﻰ ﺍﺳﺘﻄﺎﻋﺖ ﻛﮩﺎﮞ .
ﺁﭖ ﺳﮯ ﺟﻮ ﺍﻳﮏ ﻛﻴﻠﻮ ﭼﻴﻨﻰ ﻟﻴﻜﺮ
ﺟﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﺳﮯ ﺗﺮﺍﺯﻭ ﻛﮯ ﺍﻳﮏ ﭘﻠﮍﮮ ﻣﻴﮟ ﺭﮐﮫ ﻛﺮ ﺩﻭﺳﺮﮮ
ﭘﻠﮍﮮ ﻣﻴﮟ ﺍﺗﻨﮯ ﻭﺯﻥ ﻛﺎ ﻣﻜﻬﻦ ﺗﻮﻝ ﻛﺮ ﻟﮯ ﺁﺗﺎ ﮨﻮﮞ .
ﺍﺱ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﮐﻮ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﮐﮧ ﺑﻌﺪ ﺁﭖ ﮐﯿﺎ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﮐﺴﯽ ﭘﺮ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﯿﺎ ﮨﻢ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﺮﯾﺒﺎﻥ
ﭼﯿﮏ ﻧﮧ ﮐﺮﻟﯿﮟ۔ ﮐﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﺧﺮﺍﺑﯽ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍﻧﺪﺭ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ؟
ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﺻﻼﺡ ﮐﺮﻧﺎ ﻣﺸﮑﻞ ﺗﺮﯾﻦ ﮐﺎﻡ ﮨﮯ۔۔
آخر ہم کب تک لٹتے رہیں گے ۔؟؟
ایس ایم مرموی
ایک نہایت شاطر اور ماہر چور نے چوری کی خاطر، مہنگا لباس زیب تن کرکے معزز اور محترم دکھائی دینے والے شیخ جیسا حلیہ بنایا اور صرافہ بازار میں سنار کی ایک دکان کے اندر چلا گیا۔
سنار نے جب اپنی دکان میں وضع قطع سے نہایت ہی رئیس اور محترم دکھائی دینے والے شیخ کو دیکھا جس کا نورانی چہرہ چمک رہا تھا، تو سنار کو ایسا لگا جیسے اس کی دکان کے بھاگ جاگ اٹھے ہوں ۔اسے پہلی بار اپنی چھوٹی سی دکان کی عزت و وقار میں اضافے کا احساس ہوا۔
سنار نے آگے بڑھ کر شیخ کا استقبال کیا۔
شیخ کے بہروپ میں چور نے کہا: آپ سے آج خریداری تو ضرور ہوگی مگر اس سے پہلے بتائیں کیا آپ کے لیے ممکن ہے کہ آپ اپنی سخاوت سے ہمارے ساتھ مسجد بنانے میں حصہ ڈالیں؟ اس نیک کام میں آپ کا حصہ خواہ ایک درہم ہی کیوں نہ ہو۔
سنار نے چند درہم شیخ کے حوالے کئے ہی تھے کہ اسی اثناء میں ایک لڑکی جو درحقیقت چور کی ہم پیشہ تھی ، دکان میں داخل ہوئی اور سیدھی شیخ کے پاس جا کر اس کے ہاتھوں کو بوسہ دیا، اور التجائیہ لہجے میں اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے خیر و برکت کی دعا کے لیے کہا۔
سنار نے جب یہ منظر دیکھا تو اس سے رہا نہ گیا اور معذرت خواہانہ لہجے میں کہنے لگا، اے محترم شیخ لاعلمی کی معافی چاہتا ہوں مگر میں نے آپ کو پہچانا نہیں ہے۔
لڑکی نے یہ سن کر تعجب کا اظہار کیا اور سنار سے مخاطب ہوکر کہنے لگی، تم کیسے بدنصیب انسان ہو، برکت، علم، فضل اور رزق کا سبب خود چل کر تمھارے پاس آگیا ہے اور تم اسے پہچاننے سے قاصر ہو۔
لڑکی نے شیخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ فلاں علاقے کے مشہور و معروف شیخ ہیں، جنہیں خدا نے، کثرت علم ، دولت کی فروانی اور ہر قسم کی دنیاوی نعمتوں سے مالا مال کر رکھا ہے۔ انہیں انسانوں کے بھلے کے سوا کسی چیز کی حاجت نہیں ہے۔
لوگ ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بیتاب رہتے ہیں ۔
سنار نے شیخ سے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ ؛ شیخ صاحب میں معافی کا طلبگار ہوں، میرا سارا وقت اس دکان میں گزرتا ہے اور باہر کی دنیا سے بے خبر رہتا ہوں، اس لیے اپنی جہالت کی وجہ سے آپ جیسی برگزیدہ ہستی کو نہ پہچان پایا۔
شیخ نے سنار سے کہا: کوئی بات نہیں انسان خطا کا پتلا ہے، غلطی پر نادم ہونے والا شخص خدا کو بہت پسند ہے۔ تم ایسا کرو ابھی میرا یہ رومال لے لو اور سات دن اس سے اپنا چہرہ پونچھتے رہو، سات دنوں کے بعد یہ رومال تمہارے لیے ایسی برکت اور ایسا رزق لے آئے گا جہاں سے تمہیں توقع بھی نہ ہو گی۔
جوہری نے پورے ادب و احترام کے ساتھ رومال لیا، اسے بوسہ دیا، آنکھوں کو لگایا، اور اپنا چہرہ پونچھا، تو ایسا کرتے ہی وہ بے ہوش کر گرا۔ اس کے گرتے ہی شیخ اور اس کی دوست لڑکی نے سنار کی دوکان کو لوٹا اور وہاں سے فوراً رفو چکر ہوگئے۔
اس واقعے کو جب چار سال گزر گئے اور سنار رو دھو کر اپنا نقصان بھول چکا تھا۔ تو چار سال کے بعد پولیس کی وردی میں ملبوس دو اہلکار سنار کی دکان پر آئے، ان کے ساتھ وہی چور شیخ تھا جس کو ہتھکڑیاں لگی ہوئی ۔سنار اسے دیکھتے ہی پہچان گیا۔
ایک پولیس والا سنار کے پاس آکر پوچھنے لگا کیا آپ اس چور کو جانتے ہیں؟ کیونکہ آپ کی گواہی سے ہی قاضی اسے سزا سنا سکتا ہے۔ سنار نے کہا کیوں نہیں اس نے فلاں فلاں طریقہ واردات سے مجھے بے ہوش کرکے میری دکان لوٹ لی تھی۔
پولیس والا شیخ کے پاس گیا اور اس کی ہتھکڑی کو کھولتے ہوئے کہنے لگا، تم نے جس طرح دکان لوٹنے کا جرم کیا تھا ٹھیک اسی طرح وہ ساری کارروائی دہراؤ تاکہ ہم طریقہ واردات کو لکھ کر گواہ سمیت قاضی کے سامنے پیش کرکے تم پر فرد جرم عائد کروا سکیں۔ شیخ نے بتایا کہ میں اس اس طرح داخل ہوا اور یہ کہا، اور میری مددگار لڑکی آئی اس نے فلاں فلاں بات کی، پھر میں نے رومال نکال کر دکاندار کو دیا۔
پولیس والے نے جیب سے ایک رومال نکال کر شیخ کو تھمایا، شیخ نے سنار کے پاس جاکر اسی طریقے سے اسے رومال پیش کیا تو پولیس والا سنار سے کہنے لگا، جناب آپ بالکل ٹھیک اسی طریقے سے رومال کو چہرے پر پھیریں جیسے اس دن پھیرا تھا۔ سنار نے ایسا ہی کیا اور وہ پھر سے بے ہوش ہوگیا۔ شیخ نے اپنے دوستوں کی مدد سے دوبارہ دکان لوٹ لی جنہوں نے پولیس والوں کا بھیس بدل رکھا تھا۔ ملکڑی کی دو بڑی پارٹی کے سربراہ گزشتہ چالیس سال سے شیخ کی چال کیطرح ملک اور قوم کو رنگ بدل بدل کر لوٹتے رہتے مگر عوام نہ سمجھ سکی بہروپوں کے ہر روپ سے دھوکہ کھاتے رہے اور وہ اپنے فن لٹ مار سے مزے لیتے رہے اگر کہیں یہ بہروپۓ کہیں پکڑے بھی گۓ تو کچھ معزز چوروں نے نۓ انداز میں انہیں ریلیف دیکر بری از زمہ کیا یعنی ہماری قسمت میں لٹنا ہی رکھا ہے ۔
آج ہمارے ملک کا بالکل یہی حال ہے، ہر چار سال بعد شیخ کیطرح بھیس بدل چور ہمارے پاس آتے ہیں اور چکنی چپڑی باتوں سے ملک اور عوام کا سامان لوٹ کر پتلی گلی سے نکل جاتے ہیں. ہر دفعہ ایک نیا منظر، نیا لباس، نیا بہروپ ، نئی شکل اور نیا حربہ جس سے عوام دھوکہ کھا کر اعتبار کرتے ہیں آخر کب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا کب یہ بہروپۓ اپنی منطقی انجام کو پہنچیں گے اور کب ہمیں ان بہروپیوں سےنجات ملے گی یا یوں سنیارے کیطرح ہر دفعہ یوں لٹتے رہیں گے۔ اب عوام کو ان بہروپیوں سے نمٹنا ہوگا ان بہروپیوں کے چنگل سے نکلنے کی تدبیر کرنی ہوگی نہیں تو سدا بہار ہم یوں ہی لٹتے رہیں گے ۔
لاعلمی کی دعاٸیں اور چوروں کی بہتات
ایس ایم مرموی
تنخواہ والے دن دفتر میں کام کرنے والے بابو کو جب تنخواہ ملی تو وہ اپنی تنخواہ وصول کرنے کے بعد دفتر سے چھٹی کرکے نکلا اور گھر جانے کے لیے مسافروں سے بھری بس میں سوار ہوگیا۔
اسی بس میں ایک جیب کترا بھی تھا جس نے اس کی جیب مار کر پورے مہینے کی محنت ساری تنخواہ ایک منٹ میں اڑا لی۔ گاڑی خرامہ خرامہ اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی کنڈیکٹر نے سواریوں سے ٹکٹ کے پیسے مانگنے شروع کۓ جب بس کنڈیکٹر نے ٹکٹ کے لیے پیسوں کا پوچھا تو بابو نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو جیب کو خالی پاکر اس شریف شخص کا چہرہ ندامت کے مارے سرخ ہو گیا اور زبان لڑکھڑانے لگی ۔بس کنڈیکٹر نے اسے طنزیہ انداز میں کہا
” بلا ٹکٹ سفر کرنے پر تمھیں شرم آنی چاہیے ظاہری حلیے سے دیکھنے میں تو تم معزز شخص لگتے ہو، مگر تمھاری جیب میں پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہے”۔ اور بس پر سوار ہوگۓ ہو تمہارے جیسے لوگ اسطرح روز ایک نیا ڈرامہ بنا کر مفت میں سفر کرتے ہیں چل اتر جاٶ یا ٹیکٹ کے پیسے دیدو ۔
جیب کترا جو پاس ہی کھڑا تھا، اس نے کنڈیکٹر کے کندھے پر ہاتھ مارا اور کنڈیکٹر سے کہا
” میرے بھائی، اس شریف شخص کا تمسخر اڑانا بند کرو، اس کے ٹکٹ کی قیمت میں ادا کروں گا”۔ کبھی کسی شریف انسان کے ساتھ ایسا واقعہ ہوجاتا ہے اسکا مطلب یہ نہیں ہر آدمی برا ہے شریف لوگوں کے ساتھ اسطرح بد تمیزی نہیں کرتے خدا ترسی کیا کریں کبھی آپ پر بھی انجانے میں ایسی پریشانی آسکتی ہے برے وقت کا کوٸ پتہ نہیں ۔
یہ سن کر بابو نے خدا کا شکر ادا کیا اور مسکرا کر جیب کترے سے کہا؛
“اللہ آپ کو خوش رکھے اور آپ جیسے لوگوں کے کاروبار میں دن دگنی رات چوگنی خوب ترقی دے ،کیونکہ آپ جیسے ہی لوگ معاشرے کے حقیقی ہمدرد لوگ ہیں جو مصیبت میں مبتلا لوگوں کا خیال رکھتے ہیں” اور دکھوں کا مداوا کرتے ہیں اللہ آپکے جان ومال میں برکت کے ساتھ اسکی حفاظت فرماۓ ۔
کسی اجنبی پر مہربانی کا یہ منظر دیکھ کر بس کے مسافر بھی اس( چور ) شریف کے اعلیٰ اخلاق کی تعریف کرنے کے ساتھ اُس کے لیے دعا کرنے لگے، کہ خُدا اس مہربان شخص کے کاروبار میں برکت عطا فرمائے اور اُس جیسے لوگوں کا معاشرے میں اضافہ ہو۔
آج کل ہم اپنے اردگرد ہر جگہ جتنے بھی چور اچکے دیکھتے ہیں یہ سب ہماری لاعلمی میں کی گئی دعاؤں کا نتیجہ ہیں جب ہم لاعلمی میں دعا کر رہے تھے اسوقت دعا کی قبولیت کا وقت تھا جو اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہوا اور چوروں کا دھندا بام عروج کو پہنچ گیا ،کیونکہ اس کے بعد سے چوروں کی تعداد میں اللہ کی پناہ بے پناہ اضافہ ہوا ،اور اب وہ چوری بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہم سے شکریہ اور تعریف بھی وصول کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہم ہی آپ کے اصل خادم ہیں ۔لاعلمی میں دی گٸی دعاٸیں چوروں کے مستقبل کو تو سنور گٸیں اور جو دعاٸیں دیتے رہے انہی کے ہاتھوں روز لٹتے جارہے ہیں اور ساتھ ان چوروں کو دعاٸیں بھی دیۓ جارہے ہیں ۔
چور ترقی کرتے کرتے کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں بلکہ یوں کہیں سات سمندر پار تک جاٸیدادیں سمیٹ لی اور ہم ابھی تک بس میں کھڑے لٹ رہے ہیں اوران چوروں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ،ان کی مزید ترقی کے لیے دل سے دعائیں بھی مانگ رہے ہیں!! ” اس لۓ تو کہتے ہیں اللہ سے جب بھی مانگو اچھے مقدر مانگو اب چوروں کے مقدر تو دیکھیں لوٹتے بھی ہیں اور ساتھ دعاٸیں ھی لیتے ہیں واقعی یہ کتنے بڑے مقدر والے ہیں ۔اسکو کہتے ہیں مقدر کے سکندر ۔ مضمون کی مناسبت سے مزہ سے سے بھر پور راٸل البرٹ ہال میں ایمو فلپس کامیڑین کی کامیڑی کے منہ سے ادا ہوۓ چند جملے جو قارٸین کو سمجھنے میں بہترن مدد گار ثابت ہونگے اسکو اچھی طرح پڑھۓ اور سمجھۓ آپ کےسربراہان آپ کے خادم سیاستدان ہمارے آپ کے ساتھ یہی کچھ کر رہے ہوتےہیں مگر ہم سمجھنے سے عاری ہیں .
لندن کا مشہور رائل البرٹ ہال تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔سب کی نظریں پردے پرگڑی ہوئی تھیں۔ ہر ایک آنکھ اپنےپسندیدہ سٹینڈ اپ کامیڈین کیایک جھلک دیکھنے کو بے قرار تھی۔چند ہی لمحوں بعد پردہ اٹھا اور اندھیرے میں ایک روشن چہرہ جگمگایا جس کو دیکھ کر تماشائی اپنی سیٹوں سے کھڑے ہو گئے اور تالیاں کی گونج میں اپنے پسندیدہ کامیڈین کا استقبال کیا۔
یہ گورا چٹا آدمی مشہور امریکی سٹینڈ اپ کامیڈین ایمو فلپس تھا۔ اس نے مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ ہاتھ اٹھا کر اپنے چاہنے والوں کا شکریہ ادا کیا اور بڑی ہی گھمبیر آواز میں بولا دوستو! میرا بچپن بہت ہی
کسمپرسی کی حالت میں گزرا تھا، مجھے بچپن سے ہی بائیکس کا بہت شوق تھا۔ میرا باپ کیتھولک تھا، وہ مجھے کہتا تھا کہ خدا سے مانگو وہ سب دیتا ہے۔ میں نے بھی خدا سے مانگنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی اور دن رات اپنے سپنوں کی بائیک کو خدا سے مانگنا شروع کر دیا۔
میں جب بڑا ہوا تو مجھے احساس ہوا کہ میرا باپ اچھا آدمی تھا لیکن تھوڑا سا بے وقوف تھا، اس نے مذہب کو سیکھا تو تھا لیکن سمجھا نہیں تھا ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
لیکن میں سمجھ گیا تھا۔ اتنا کہہ کر ایموفلپس نے مائیکروفون اپنے منہ کے آگے سے ہٹا لیا اور ہال پر نظر ڈالی تو دور دور انسانوں کے سر ہی
سر نظر آ رہے تھے لیکن ایسی پِن ڈراپ سائلنس تھی کہ اگر اس وقت سٹیج پر سوئی بھی گرتی تو شاید اس کی آواز کسی دھماکے سے کم نہ ہوتی۔ہر شخص ایمو فلپس کی مکمل بات سننا چاہتا تھا کیونکہ وہ بلیک کامیڈی کا بادشاہ تھا، وہ مذاق ہی مذاق میں فلسفوں کی گھتیاں سلجھا دیتا تھا۔ ایمو نے مائیکروفون دوبارہ اپنے ہونٹوں کے قریب کیا اور بولا:
میں بائیک کی دعائیں مانگتا مانگتا بڑا ہو گیا لیکن بائیک نہ ملی، ایک دن میں نے اپنی پسندیدہ بائیک چرالی بائیک چرا کر گھر لے آیا اور اس رات میں نے ساری رات خدا سے گڑ گڑا کر معافی مانگی اور اگلے دن معافی کے بعد میرا ضمیر ہلکا ہو چکا تھا اور مجھے میری پسندیدہ بائیک مل چکی تھی اور میں جان گیا تھا کہ مذہب کیسے کام کرتا ہے۔ اتنا کہہ کر جیسے ہی ایمو فلپس خاموش ہوا تو پورا ہال قہقوں سے گونج اٹھا، ہر شخص ہنس ہنس کر بے حال ہو گیا۔ اور کیا آپ جانتے ہیں اس لطیفے کو سٹینڈ اپ کامیڈی کی تاریخ کے سب سے مشہورلطیفے کا اعزاز حاصل ہے۔
اتنا کہہ چکنے کے بعد ایمو فلپس نے پھر سے مائیکروفون ہونٹوں کے قریب کیا اور بولا: “اگر تم کبھی کسی مال دار شخص کو خدا سے معافی مانگتے دیکھو تو یاد رکھنا وہ مذہب سے زیادہ چوری پر یقین رکھتا ہے”۔۔۔ اتنا کہہ کر ایمو فلپس پردے کے پیچھے غائب ہو گیا اور لاکھوں شائقین ہنستے ہنستے رو پڑے کیونکہ یہ ایسا جملہ تھا جس نے بہت سارے فلسفوں کی گھتیاں سلجھا دی تھیں۔ میں ایک عرصے سے
دیکھ رہا ہوں کہ وہ تمام لوگ جن پر پاکستان میں کرپشن، عدالتی کیس چل رہے ہیں، وہ سب لوگ مکہ مدینہ میں قران پاک پڑھتے ہوئے، نماز پڑھتے ہوئے، جالیوں کو چومتے ہوئے اور ہزار طرح کی مناجات کرتے ہوئے
تصویریں کھنچوا کھنچوا کر پاکستان بھیج رہے ہیں اور لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ دیکھو ہم کتنے نیک اور مذہبی ہیں، ہم تو ہر لمحہ اللہ سے توبہ استغفار کرتے رہتے ہیں. لیکن میرے کانوں میں بار بار ایمو فلپس کا
وہ جملہ گونج رہا ہے ۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
“اگر تم کبھی کسی مال دار شخص کو خدا سے معافی مانگتے دیکھو
تو یاد رکھنا *وہ مذہب سے زیادہ* *چوری پر یقین رکھتا ہے….!