گندم کی ذخیرہ اندوزی کب تک؟

گندم کی ذخیرہ اندوزی کب تک؟
وطن عزیز میں ان دنوں گندم کی کٹائی کا زبردست سیزن چل رہا ہے۔ حکومت نے دو ماہ قبل ہی اس کا ریٹ 3900 روپے فی من مقرر کر دیا تھا۔ لیکن اب ملک بھر میں گندم 5 ہزار سے 6 ہزار روپے من فروخت کی جارہی ہے۔ یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق جو گاہک جس دام میں پھنس گیا وہی گندم کا ریٹ نکلا۔ اللہ خیر کرے! اس مرتبہ تو سیزن کے آغاز سے ہی ہمارے کچھ بڑے بڑے کسانوں اور فلور ملز مالکان نے گندم ذخیرہ اندوزی کرنا شروع کردی ہے۔ کسانوں نے جیسے ہی کھیتوں سے گندم گھروں کو منتقل کی تو اردگرد کے لوگ گندم کے حصول کےلیے کسانوں کے گھروں کے گرد چکر کاٹے رہے۔ کچھ لوگ تو گندم کے حصول لےلیے کسانوں کے گھروں کے آس پاس گھنٹوں انتظار کرتے؛ صبح شام منڈلاتے رہے۔ لیکن سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ہمارے تاجر نما کسان کسی کو 6 ہزار روپے من گندم دینے کو بھی تیار ہوں۔ کیوں کہ کسانوں اور تاجروں نے مل جل کر اس کا پہلے ذخیرہ کرنا ہے، پھر جب کچھ عرصے بعد اس کی قیمتیں دگنی ہوجائے گی۔ اس وقت اسے عام مارکیٹوں میں فروخت کرنا ہے۔ گندم کی کثرت کے باوجود بھی 20 کلو آٹے کا تھیلا مارکیٹوں سے غائب کردیا گیا ہے۔ جب کہ 15 کلو گرام کا تھیلا 2400 روپے میں فروخت کیا جارہا ہے۔ حالیہ دنوں ایک خبر نظروں سے گزری کہ پاکستان کی معیشت سری لنکا سے بھی زیادہ تنزلی کا شکار ہوچکی ہے۔ گزشتہ برس سیلاب کی خطرناک حد تک تباہی کے بعد ایک کثیر زرعی رقبے کے بنجر ہونے کے بعد جہاں پاکستان میں قحط کی سی صورت پیدا ہوچکی ہے۔ اس لیے کھانے پینے کی تمام اشیاء مثلا: سبزیاں، دالیں، پھل، خشک میوہ جات، چائے، گھی اور گندم سمیت سینکڑوں اشیائے ضروریات کی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ذخیرہ اندوزی نے ہماری ڈوبتی اقتصادی حالت کو مزید دبو کر رکھ دیا ہے۔ ہم سب کےلیے ضروری ہے کہ مل جل کر ایک دوسرے کےلیے آسانیاں پیدا کریں۔ سوشل میڈیا پر آئے روز طرح طرح کی گندگی ویڈیوز دیکھ دیکھ کر ہم آپس میں اس قدر اختلافات کا شکار ہوچکے ہیں کہ اکثر ایسا بھی ہوتے دیکھا کہ بیچ سڑک پر کوئی حادثہ ہوجائے تو ہم لوگ زخموں سے چکنا چور شخص کو اس وقت تک نہیں اٹھاتے جب تک ریسکیو یا قانون نافذ کرنے والے ادارے نہ پہنچ جائیں۔ اگر حادثے والی جگہ ایمبولینس دیر سے پہنچے اور حادثےکا شکار فرد سسک سسک کر دم توڑ جائے تو ہمیں اس کی کوئی پروا نہیں ہوتی ہے۔ ہماری سوچ اس قدر برترین ہو چکی ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر حادثے کا شکار فرد کی اسٹرانگ کریں گے تو کہیں قانون نافذ کرنے والے ادارے ہم سے پوچھ گچھ کرکے ہمیں کسی نئی مصیبت میں نہ ڈال دیں۔ جب کہ ہمارا اسلام ہمیں کہتا ہے کہ جس نے ایک انسان کی بھی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی۔۔۔۔ تو پھر ڈر کس بات کا؟ عجیب دور چل پڑا ہے۔۔۔ ہر طرف نفسانفسی، حسد، نفرت، مارا ماری اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ ہر تاجر کا اپنا انداز تجارت ہے، ہر دکان دار کا اپنا انداز کاروبار ہے۔ ہر ایک کے اپنی من پسند کے ریٹ ہیں۔ گویا ہر طرف من مرضی کی لوٹ مار سیل لگی ہوئی۔ اتنا چور ڈاکو نہیں لوٹ رہے، جتنا ہمارے تاجر اور کاروباری حضرات ہمیں لوٹ رہے ہیں۔ ہر طرف مل جل کر غریب عوام کی کھال اتاری جارہی ہیں۔ عوام کی اکثریت دن رات حکمرانوں کے پیچھے پڑی؛ ان کو برا بھلا کہتی ہے۔ لیکن کیا ہم نے آج تک اس خود ساختہ مہنگائی کے خلاف ان تاجروں اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف یکجا ہو کر آواز اٹھائی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم سب کے اپنے اپنے مفادات وابستہ ہیں نہ ہم خود کو بدلنا چاہتے ہیں اور نہ ہی اس نظام کو بدلنے والوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہتے ہیں۔ ہماری بے حسی کی داستان صرف تاجروں تک محدود نہیں بلکہ یہ زندگی کے ہر شعبے میں سرایت کر چکی ہے۔ ڈاکٹروں، وکیلوں، ججوں بلکہ اب تو ہر طرح کے محکموں و اداروں میں سرعام کرپشن ہورہی ہے۔ 75 سالوں سے ہم نسل در نسل ان کوتاہیوں کے مرتکب ہورہے ہیں۔ اس لیے چاروں طرف نفرتوں اور جہالتوں کے انبار لگ چکے ہیں اور ہم اپنے اپنے حصے کی غلاظتیں تقسیم کرکے اپنے ملک کو آلودہ کرتے چلے جارہے ہیں۔ اگر ہم اپنے اپنے حصے کی فلاح معاشرہ کی شمع روشن کرتے تو آج ہمارے حالات اتنے برترین نہ ہوتے جتنے اب ہوچکے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں